کتاب: غزنوی خاندان - صفحہ 100
ایک قریبی عزیز لکھنؤمیں چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ کر انتقال کر گئے حافظ صاحب ان یتیموں کی نگہداشت کیلئے دہلی سے چلے گئے۔یہاں آپ چند ہفتہ پر21 صفر 1237ھ26 نومبر1918ء انتقال کرگئے۔اور عیش باغ کے قبرستان میں دفن ہوئے ۔ مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری جملہ علوم اسلامیہ مہارت رکھے تھے اور سربرآورہ فقیہہ تھے علمی تبحرکے ساتھ زہدو تقوی کی صفت سے بھی متصف تھے ترک تقلید میں بڑا غلو رکھتے تھے تمام علوم میں ان کو تبحرعلمی حاصل تھا۔ صاحب’’تراجم علماء حدیث ہند’’نے مولانا شمس الحق عظیم آبادی کی یہ روایت نقل کی ہے کہ : ’’میرے کتب خانہ میں ایک بہت پرانی کتاب منطق کی تھی عبارت کی پیچیدگی کے ساتھ مسائل منطقیہ کا بیان کچھ اس طرز سے تھا کہ بظاہر کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا جناب حافظ صاحب اتفاق سے ڈیانواں تشریف لائے میں نے وہ کتاب دکھا کر کہا یہ تو چیستاں معلوم ہوتی ہے حافظ صاحب نے کتاب کے چند ورق الٹنے کے بعد فرمایا کچھ نہیں مسائل وہی ہیں عبارت ذرا پیچیدہ ہے اس کے ساتھ ہی آپ نے بعض مضامین کا مطلب عام فہم الفاظ میں بیان فرمادیا ‘‘۔(تراجم علمائے حدیث ہند:461) مولانا حافظ عبداللہ کی ساری زندگی درس وتدریس میں بسر ہوئی تاہم تصنیف و تالیف سے بھی غافل نہیں رہے آپ نے جو چھوٹی بڑی کتابیں لکھیں ان کی تفصیل یہ ہے۔ 1۔ ابراء اہلحدیث والقرآن۔2۔البحر المواج فی شرح مقدمہ الصحیح المسلم بن الحجاج (عربی)3۔علم غیب۔4۔رکعات التراویح ۔5۔کتاب الزکاۃ ۔6۔الحجہ السامعہ فی بیان البحیرۃ و السائب (اردو)7۔قانون مسجد۔8۔فتوی مال زانیہ بعد توبہ ۔9۔ فتاوی غازی پوری۔10۔جواب المہتدین لرد المعتدین ۔11۔سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔12۔فصوی احمدی۔ 13۔منطق ۔14۔ النحو۔ 15۔تسہل الفرائض۔ حافظ صاحب کا ایک نایاب کتب خانہ تھا جو نوادر پر مشتمل تھا ان کے انتقال کے بعد یہ کتب خانہ