کتاب: غم کاعلاج - صفحہ 7
اور سختی کے دن نہایت آسانی سے گزر جایا کریں۔ الف: ایسے معاملات کہ جن کا تعلق انسانی جدو جہد، کا وش اور دائرہ اختیار سے باہر ہو، ان کے بارے میں تقدیر کے اچھا اور بُرا ہونے پر مکمل یقین محکم اور ایمان جازم رکھا جائے۔ چنانچہ سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا یُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتّی یُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَیْرِہِ وَشَرِّہِ مِنَ اللّٰہِ وَ حَتَّی یَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَہُ لَمْ یَکُمْ لِیُخْطِئَہُ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَہُ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبَہُ۔)) [1] ’’اتنی دیر تک بندہ مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ: وہ اللہ عزوجل کی طرف سے تقدیر کے اچھا اور بُرا ہونے پر ایمان لے آئے (یقین محکم و ایمانِ جازم کے ساتھ تقدیر کو قبول کرے۔) اور یہاں تک کہ وہ اس بات کو پورے رسوخ سے جان لے کہ: جو کچھ اس کو (خیر یا شر میں سے) پہنچا ہے وہ کبھی بھی خطا ہونے والا نہ تھا۔ اور بلاشبہ جو اس سے ٹل گیا ہے وہ اس کو کبھی بھی پہنچنے والا نہ تھا۔‘‘ ب: (لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا
[1] ) صحیح سنن الترمذی للألباني؍کتاب القدر؍باب ما جاء أن الایمان بالقدر خیرہ و شرہ؍ حدیث : ۲۱۴۴۔ كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ (البقرہ: ۲۸۶) ’’اللہ عزوجل کسی شخص پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر جتنا وہ اُٹھا سکے۔ چنانچہ اس نے