کتاب: غم کاعلاج - صفحہ 6
اس کو چھین لیں تو بلاشبہ وہ نااُمید و ناشکرا بن جاتا ہے۔ اور اگر ہم اس کو اس تکلیف کے بعد کہ جو اس پر آئی ہو پھر کسی نعمت و آرام کا مزہ چکھائیں تو وہ ضرور کہنے لگتا ہے کہ: اب تمام دلدر مجھ سے دُور ہو گئے ہیں اور بلاشبہ وہ اس وقت پھر خوش ہو کر شیخی بگھارنے لگتا ہے۔‘‘
یعنی انسان میں یہ کمزوری ہے کہ جب اسے کوئی معمولی سی بھی آزمائش و مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی پچھلی تمام نعمتوں اور مہربانیوں کو یکسر بھول جاتا ہے،اور یہی اس کی ناشکری ہے۔ بعینہ معاملہ اس کے برعکس بھی ہے کہ: جب اسے کوئی نعمت ملتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرنے کی بجائے اترانے لگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ: اب تمام مصیبتیں اور سختیاں ختم ہو گئیں۔
دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں ہے کہ جسے کوئی غم، دُکھ،تکلیف اور مصیبت لاحق نہ ہو۔ اس میدان میں ہر آدمی کسی نہ کسی آزمائش کا شکار ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ: جب ہم اللہ رب العالمین کی طرف سے آئی ہوئی آزمائشوں کے نتیجے میں حاصل شدہ دُکھوں اور غموں کا علاج اپنی عقل و تدبیر یا ناقص العلم لوگوں کے ٹونے، ٹوٹکوں سے کرنے لگتے ہیں تو مشاکل کم ہونے کی بجائے اور بڑھ جاتی ہیں۔ جن سے تنگ آکر دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ اللہ رب کبریا کی ذاتِ رحیم و کریم کے بارے میں نہایت گستاخانہ و نازیبا الفاظ کا استعمال کر کے اپنی آخرت تباہ کر بیٹھتے ہیں۔ اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جو ہمت ہار کر اپنی زندگی سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اس ضمن میں اگر تین باتوں کا لحاظ رہے تو نوبت یہاں تک کبھی بھی نہ پہنچے