کتاب: غم کاعلاج - صفحہ 31
تَقُلْ: لَوْ اَنِّی فَعَلْتُ کَذَا کَانَ کَذَا وَکَذَا، وَلٰکِنْ قُلْ: قَدَرُ اللّٰہِ، وَمَا شَآئَ فَعَلَ، فَاِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ۔)) [1] ’’طاقتور، مضبوط مومن مسلمان اللہ عزوجل کو کمزور مسلمان مومن سے زیادہ پیارا لگتا ہے اور وہ کمزور مسلمان سے ہوتا بھی بہتر ہے۔ مگر خیر و برکت سب میں ہے۔ (نصیحت کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) جو کام یا جو بات تمہیں فائدہ دے اس کی طمع کرو،اللہ رب ذوالجلال سے مدد طلب کرتے رہو اور (اللہ کی اطاعت، خیر، بھلائی کی طلب اور اللہ کی مدد مانگتے رہنے سے) عاجز نہ آجاؤ۔ او ر اگر تمہیں کوئی نقصان، حادثہ یا کوئی مشکل آپہنچے تو یوں نہ کہو: اگر میں اس طرح کر لیتا تو یوں (ٹھیک)ہو جاتا۔ (جب مقدر میں لکھا تھا تو پھر تم اس کے خلاف کیا کر لیتے؟) بلکہ یوں کہو: یہ اللہ کی طرف سے مقدر تھا۔ (اللہ کریم نے چونکہ تقدیر میں یونہی لکھا تھا اس لیے یہ ہو کر ہی رہنا تھا۔) اور جو اس رب کبریاء نے چاہا ویسا اس نے کر دیا۔ اور یہ بات یاد رکھو کہ ’’اگر، مگر‘‘ کا لفظ شیطان کے عمل دخل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ (اور پھر اس کا سب سے پہلا حملہ عقیدۂ تقدیر پر ہوتا ہے۔ العیاذ باللہ) تو اس حدیث مبارکہ میں نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو باتوں کو جمع فرما دیا۔
[1] ) صحیح مسلم؍ کتاب القدر؍ باب الإیمان بالقدر والاذعان لہ؍ حدیث:۶۷۷۴