کتاب: غم کاعلاج - صفحہ 20
ثباتِ زندگی ایمانِ محکم سے ہے دنیا میں کہ المانیؔ سے بھی پائندہ تر نکلا ہے توراؔنی ایک مثال:…اس قسم کے لیے ایک مثال ہے، اگر آپ اسے لوگو ں پر منطبق کرتے ہوئے اس کے بارے میں غورو فکر کریں گے تو آپ: اُس مومن آدمی کے درمیان کہ جو اپنے ایمانی تقاضوں کو عملی طور پر پورا کرنے والا ہو اور اس شخص کے درمیان بہت بڑا فرق پائیں گے کہ جو اس طرح کا نہ ہو۔ مثلاً… دین اسلام آدمی کو اللہ رب العالمین کے دیے ہوئے رزق پر اور مختلف قسم کے اپنے اُس فضل و کرم پر قناعت کرنے کی پوری پوری تلقین کرتا اور ترغیب دلاتا ہے کہ جو اس نے بندوں کو عطا کر رکھا ہے۔ چنانچہ مومن آدمی کو جب کسی بیماری اور فقر و فاقہ جیسی مقدر شدہ اتفاقی چیزوں سے آزمایا جاتا ہے کہ جن کا ہدف و نشانہ ہر شخص بن سکتا ہے تو بلاشہ اپنے ایمانِ جازم، اپنے پاس قناعت والی صلاحیت اور اللہ کی تقسیم پر رضا مندی کے ذریعے آپ اُس اللہ کے بندے کو دیکھیں گے کہ وہ اس آزمائش پر بھی نہایت مطمئن اور راضی ہو گا۔ وہ اپنے دل سے کسی ایسے معاملہ کا مطالبہ نہیں کرے گا کہ جو اس کے لیے مقدر نہ کیا گیا ہو۔ وہ ہمیشہ اپنے سے نچلے کی طرف دیکھے گا (کہ اللہ رب کبریاء نے اُسے اس شخص سے تو بہتر بنایا ہے) اور مومن آدمی اپنے سے (مال و دولت اورنعمتو ں کی فراوانی میں) اوپر والے کی طرف کبھی نہیں دیکھے گا۔ بسا اوقات ایسے مومن آدمی کی مسرت و شادمانی، اس کے دل کا سروراور اس کی راحت اُس شخص سے بڑھ جاتی ہے کہ جسے قناعت (اور شکر