کتاب: غم کاعلاج - صفحہ 17
اس معاملہ کی حیثیت و اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
((عَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ لَہُ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذَلِکَ لِأَحَدٍ إِلاَّ لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّائُ شَکَرَ، فَکَانَ خَیْرًا لَہُ، وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّائُ صَبَرَ، فَکَانَ خَیْرًا لَہُ۔))[1]
’’مومن آدمی کا معاملہ نہایت حیران کُن ہے۔ بلاشبہ اُس کے تمام کے تمام معاملہ میں اس کے لیے بھلائی ہے اور یہ (مرتبہ و مقام) مومن آدمی کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔ اگر مومن شخص کو خوشی و شادمانی حاصل ہو اور وہ اس پر اللہ کا شکر ادا کرے تو بھی یہ اُس کے لیے خیر و برکت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اور اگر اُسے کوئی تکلیف پہنچے اور اس پر وہ صبر کرے تب بھی اُس کے لیے یہ تکلیف دہ معاملہ بہتری کا ذریعہ بن جاتا ہے۔‘‘
اس حدیث مبارک میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کی (اللہ کی طرف سے دی گئی) خبر دے رہے ہیں کہ: مومن آدمی کی فائدہ مند چیزوں، خیرات و برکات اور اس کے خوش آئند و ناپسندیدہ دونوں طرح کے اعمال کے ثمرات میں سے کہ جن سے اُسے واسطہ پڑے، ہر ایک میں کئی گنا خیر کا پہلو ضرور ہوتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ: خوشی و ناخوشی، سُکھ اور دُکھ دونوں کو خیر یا شر کے پیش آمدہ حوادث
[1] ) صحیح مسلم؍ عن صہیب رضی اللّٰہ عنہ ؍کتاب الزھد؍ باب المؤمن أمرہ کلہ خیر؍ حدیث: ۷۵۰۰۔