کتاب: فرصت کے لمحات کیسے گزاریں ؟ - صفحہ 132
﴿ہَلْ عَسَیْتُمْ اِِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا اَرْحَامَکُمْ o اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمْ اللّٰہُ فَاَصَمَّہُمْ وَاَعْمَی اَبْصَارَہُمْ ﴾ (محمد۲۲۔۲۳)
’’ تم سے بعید نہیں کہ اگر تمہیں استقرار مل جائے تو تم زمین میں فساد بپا کرو،اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔یہی وہ لوگ ہیں جن پراللہ تعالیٰ کی پھٹکار ہے ،اوران کو سماعت سے محروم کردیا اور ان کی آنکھو ں کی روشنی چھین لی ہے ۔‘‘
والدین اوراہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک ؛ بڑے کا ادب ؛ اور چھوٹے کے ساتھ شفقت؛ مریض کی عیادت ؛ پریشان حال سے تعزیت؛اور جو قطع رحمی کرنے کرنے والے کے ساتھ رابطہ بڑھانا، اسلام کی سنہری تعلیمات میں سے ہیں ۔والدین کی خدمت دنیا میں برکت اور رحمت کا سبب ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’بے شک اللہ تعالیٰ انسان کی عمر اس کے والدین کے ساتھ حسن ِسلوک کی وجہ سے بڑھاتے ہیں ۔‘‘ (مشکوٰۃ)
صلہ رحمی یہ نہیں ہے کہ جو آپ کے ساتھ اچھاسلوک کرے، اس کے بدلہ میں اچھا سلوک کیا جائے ، اور برا سلوک کرنے پر دوری اختیار کی جائے، بلکہ صلہ رحمی یہ ہے کہ جو آپ سے قطع تعلقی کرے آپ اس سے رابطہ کو استوار کریں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
’’ صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو بدلہ کے طور پر برابر کا سلوک کرے، صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب اس سے قطع تعلقی کی جائے تو وہ تعلق کو جوڑے اور صلہ رحمی کرے۔‘‘ ( بخاری:۵/۷۵)
اور ارشادفرمایا:
’’ جس کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں برکت دی جائے اور اس کے ذکر کو جاری رکھا جائے پس اسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘
(متفق علیہ)