کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 52
حافظ صاحب: میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا اسماعیل سلفی جس جگہ گوجرانوالہ میں پہلے دن بیٹھے وہاں انھوں نے ساری زندگی گزار دی۔ تنگی ترشی آئی سب برداشت کیا، صبر سے کام لیا، اپنی اولاد کو بھی دین کے کام میں لگایا۔ ان کے بیٹے حکیم محمود نے مطب کے ساتھ ساتھ ساری زندگی دین کی بھی خدمت کی۔ اب حکیم محمود کے بیٹے حافظ اسعد محمود بھی دین کی تبلیغ واشاعت کا کام کررہے ہیں۔ا س کیے برعکس غزنوی خاندان قیام پاکستان کے وقت پاکستان آیا۔ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ نے یہاں آکر جو کام کیا سو کیا، اس کے بعد ان کے بیٹے سید ابوبکر غزنوی رحمہ اللہ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ رک گیا۔ یہی حال روپڑی خاندان کا ہے۔ ان کے بیٹے اب دنیا داری میں پڑ گئے ہیں۔ اب اگر تھوڑا بہت کام ہے تو حافظ عبدالرحمن مدنی کے بیٹے کر رہے ہیں۔ لیکن ان میں بھی علم کی وہ پختگی نہیں جو ان کے اسلاف کا خاصہ تھی۔ مدنی صاحب کی بیگم بھی میری شاگردہ ہیں۔ وہ مولانا عبدالرحمن کیلانی کی بیٹی ہیں۔ ہم تینوں نے علامہ وحید الزماں کی بخاری شریف کے ترجمہ پر کام کیا ہے۔ اس ترجمہ میں عقیدے کی اور دوسری بہت سی غلطیاں ہیں۔ ہم تینوں نے کتاب میں غلطیوں کی اصلاح اور مسائل کی وضاحت کی ہے۔ کتاب الجنائز کے آخر تک ہم نے یہ کام کیا ہے جو موجود ہے۔ لیکن بہرحال علم کی پختگی کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ علماء میں علم کی پختگی ضرور ہونی چاہیے۔ ایک بات یاد آئی وہ یہ ہے کہ اس وقت ایک فتنہ وباء کی طرح پھیل چکا ہے۔ یہ ڈاکٹری(P.H.D) کافتنہ ہے۔ ڈاکٹر کیسے بنتے ہیں؟ لوگوں کو رکھ لیتے ہیں، محنت وہ کرتے ہیں، کتابیں وہ لکھتے ہیں ۔ نام ان کا چلتا ہے اور ڈاکٹر بن جاتے ہیں۔ اکثر اس طرح ہوتا ہے۔ الا ما شاء اللہ ضیائے حدیث: حافظ صاحب! آپ کی کون سی خواہشات ہیں جو تشنہ تکمیل ہیں؟ حافظ صاحب: میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ میری اولاد میرے نقش قدم پر چلے۔ میری اولاد میں سے میرا سب سے چھوٹا بیٹا میرے نقش قدم پر ہے۔ اس نے صحیح بخاری مجھ سے پڑھی ہے اور ہمارے گاؤں کی مسجد میں جمعہ بھی وہی پڑھاتا ہے۔ میری والدہ کی نصیحت تھی کہ جمعہ گاؤں میں پڑھانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے ساری زندگی اپنا گاؤں نہیں چھوڑا۔ میں نے جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں ۸ سال پڑھایا ہے۔ لیکن والدہ مرحومہ کی نصیحت کے مطابق ۸ سال مسلسل جمعہ اپنے گاؤں میں آکر پڑھاتا رہا ہوں۔ جمعہ پڑھانے کے بعدگاؤں سے رات کے وقت فیصل آباد جایا کرتا تھا ۔ اب میرا چھوٹا بیٹاگاؤں میں میری جگہ