کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 51
حافظ صاحب: علماء کے لیے یہی نصیحت ہے کہ جو کچھ پڑھا ہے اس پر عمل کریں۔ اگر عمل کریں گے تو سب کچھ صحیح ہو جائے گا ۔اگر عمل نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ عمل کے بغیر علم وبال ہے۔ ضیائے حدیث:حافظ صاحب! کیا آپ کی مولانا داؤد غزنوی اورمولانا اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہما سے ملاقاتیں ہوئی ہیں؟ حافظ صاحب: مسجد قدس میں جب ہم زیر تعلیم تھے تو حافظ عبد القادر صاحب رحمہ اللہ اکثر جلسوں پر چلے جایا کرتے تھے۔ کھانا اس وقت پکتا جب وہ جلسے سے واپس آتے تھے۔اگر وہ سارا دن تشریف نہ لاتے تو کھانا بھی نہ پکتا۔ انکے جلسوں پر چلے جانے کی وجہ سے ہمارے اسباق کے بہت ناغے ہوجاتے تھے۔ ہمیں کھانے کی زیادہ تکلیف نہ تھی۔ اس لیے کہ اس وقت کے طلباء کی پہلی ترجیح تعلیم ہوتی تھی۔ اگر تعلیم کا نظام صحیح ہوتا تو وہ خوش رہتے تھے۔ میں نے اپنے دوست سے مشورہ کیا( ہنستے ہوئے) آپ سمجھ گئے ہوں گے ۔د وست کون تھے… مولانا عبدالسلام کیلانی، ہم دونوں مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ کے پاس ان کے مدرسہ دار العلوم تقویۃ الاسلام چلے گئے۔ اوران سے عرض کی کہ مسجد قدس میں ہماری پڑھائی کا بہت حرج ہو رہا ہے۔ لہٰذا ہم آپ کے پاس بغرض تعلیم داخل ہونا چاہتے ہیں۔ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ فرمانے لگے : ’’آجاؤ! جب ہم مسجد قدس واپس پہنچے تو ضمیر نے اجازت نہ دی کہ مدرسہ بدلیں۔ اس وقعہ کے چند دن بعد مولانا محمد حسین روپڑیs فوت وہ گئے توان کی تعزیت کے لیے مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ ماڈل ٹاؤن تشریف لائے ۔ حافظ محمد حسین رحمہ اللہ کے گھر کے سامنے شیشم(ٹاہلی) کا درخت تھا۔ وہ اس کے نیچے بیٹھے تھے۔ بڑے حافظ صاحب بھی بیٹھے تھے۔ مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ بیٹھے بیٹھے اچانک ہی بڑے حافظ صاحب سے مخاطب ہوکر کہنے لگے: اپ کے کچھ طالب علم ہمارے پاس داخلے کے لیے آئے تھے لیکن دوبارہ نہیں آئے۔ مولانا سلیمان کیلانی، مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے۔ مولانا عبدالسلام کیلانی مولانا سلیمان کیلانی سے ملنے جب گوجرنوالہ جاتے تو وہ مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ سے مستفید ہو تے تھے۔ اور ایک دفعہ میں مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ سے ملنے گوجرانوالہ گیا تو وہ عام چار پائی پر بیٹھے مسجد کے کونے میں عمدۃ القاری کا مطالعہ کررہے تھے۔ ضیائے حدیث: حافظ صاحب کئی دفعہ ذہن میں ایک بات آتی ہے کہ لاہور میں غزنوی اورروپڑی خاندان دو بہت بڑے علمی خاندان تھے۔ سیالکوٹ میں مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی جیسی عظیم علمی شخصیت تھی۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ گوجرانوالہ میں اہل توحید کی تعداد میں جو اضافہ ہوا وہ لاہور میں ہو سکا نہ سیالکوٹ میں؟ آپ کیا سمجھتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے ؟