کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 50
ہم آپ کے استاد ٹھہرے۔‘‘ محدث روپڑی یہ بات سن کر ہنس پڑتے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ استاد کو پہلے خود تیاری کرنی چاہیے۔ جو استاد پہلے خود تیاری نہیں کرتا وہ مسند معلّمی پر بیٹھنے کے لائق نہیں اور تدریس میں ناکام ہے۔ استاد کو چاہیے کہ پہلے خود مطالعہ کرے اگر اسے کوئی مسئلہ سمجھنے میں مشکل درپیش ہو تو اپنے سینیئر سے پوچھے۔ ضیائے حدیث: طلبہ کے لیے آپ کیا نصیحت فرمائیں گے؟ حافظ صاحب:طالب علم کے لیے پہلی بات یہ ہے کہ وہ اپنی نیت خالص کرے، خود کو اللہ کے لیے وقف کردے۔ یہ ارادہ رکھے کہ اللہ کی رضا کے لیے پڑھنا ہے ملازمت کے لیے نہیں۔ آج کل علم کے حصول کا مطلب ملازمت ہے کہ کسی سکول میں مدرس لگ جاؤں۔ دینی طلبہ کے سکولوں میں ملازمت کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ غالباً ہماری جماعتی کوتاہی ہے۔ جماعت کا نظم نہیں اور جو طلباء تکمیل علم کے بعد فارغ ہوتے ہیں ان کے لیے کوئی پروگرام نہیں۔ جن جماعتوں میں نظم و نسق ہے وہاں یہ صورت حال نہیں ۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے لوگ تنگ آکر دوسری جماعتوں میں چلے جاتے ہیں۔ جو عہدوں پربراجمان ہیں وہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک واقعہ آپ کوسناؤں ۔ جب میں مدینہ یونیورسٹی سے فارغ ہو کر آیا تو چنددنوں بعد میں ماموں کانجن کانفرنس میں چلا گیا۔ وہاں مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی۔ جب ان کومعلوم ہوا کہ میں مدینہ یونیورسٹی کا فارغ التحصیل ہوں تو خوش بھی ہوئے اور ساتھ یہ بھی فرمایا: ایک مدینہ یونیورسٹی سے فارغ ہو کر آیا ہے اور ہمارے لیے مصیبت بنا ہوا ہے۔ آپ ایسے نہ کریں جیسے وہ کر رہا ہے۔‘‘ ان کا اشارہ حافظ احسان الٰہی ظہیر کی طرف تھا۔ حافظ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ بم دھماکہ سے پہلے ایک دفعہ میرے گھر آئے، کافی دیر تک میرے پاس رہے۔ مدینہ کی یادوں کو ہم نے خوب تازہ کیا۔ پھر کہنے لگے: ’’حافظ صاحب! ہم نے ایک منظم اور متحرک جماعتی پلیٹ فارم قائم کردیا ہے۔ آپ بھی ہمارے ساتھ آئیں اور کام کریں۔‘‘ میں نے کہا: علامہ صاحب ! سیاست آپ کا ہی میدان ہے اور آپ کو ہی جچتا ہے۔ میں تدریس، تصنیف و تالیف کا آدمی ہوں۔ بہرحال علامہ صاحب ساتھیوں سے بہت محبت اور پیار کرتے تھے اور دوستانہ تعلق ہمیشہ قائم رکھتے تھے۔ ضیائے حدیث: علماء کے لیے کیا نصیحت ہے؟