کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 49
یاد ہے اس طرح میں فتح الباری سے حدیثیں نکال لیتا ہوں۔ جب ضرورت پڑے ساتھ عمدۃ القاری بھی رکھ لیتا ہوں۔ سنن ابی داؤد جامعہ سلفیہ میں سات سال پڑھائی ہے۔ الشیخ منیر قمر وغیرہ میرے شاگرد ہیں۔ میرے خصوصی شاگرد قاری ابراہیم میر محمدی ہیں۔ وہ اکثر فون کرکے میرا حال پوچھتے رہتے ہیں۔ قاری ابراہیم نے مجھ سے ابوداؤد پڑھی ہے۔ جتنی پڑھی ہے وہ ساتھ نوٹ بھی کی ہے۔ تفاسیر میں سے تفسیر معالم التنزیل میرے زیر مطالعہ رہتی ہے۔ یہ بہت اچھی تفسیر ہے اور سلف کے عقیدے پر ہے۔ حافظ محمد لکھوی رحمہ اللہ نے جو شعری تفسیر لکھی ہے۔ ان کا اعتمادتفسیر معالم التنزیل پر ہے۔ یہی وجہ ہے ان کے عقیدے میں جھول نہیں ہے۔ بالخصوص استواء علی العرش کے مسائل بالکل صحیح ہیں۔ تفسیر طبری کے ساتھ بھی میرا بہت تعلق ہے۔ جامع ترمذی بھی میری پسندیدہ کتب میں شامل ہے۔ کیونکہ اس میں مذاہب کا بیان ہے اور میرا ذوق بھی مذاہب کا ہے۔ اس میں راجح مرجوح کے مسائل بھی ہیں۔ ضیائے حدیث :حافظ صاحب ! اپنی تصنیف و تالیف کے بارے میں ضیائے حدیث کے قارئین کو آگاہ فرمائیں؟ حافظ صاحب:اب طبیعت میں اضمحلال آگیا ہے ، اس لیے تدریس مشکل ہو گئی ہے اور اسی وجہ سے میں نے تصنیف و تالیف کا کام شروع کردیا ہے جائزۃ الاحوذی کے نام سے میں نے ترمذی کی شرح لکھی ہے۔ جائزۃ الاحوذی کے لکھنے کا جب ارادہ کیا تو اس کی فہرست مولانا عبدالسلام کیلانی رحمہ اللہ نے مرتب کی تھی۔ میری ایک کتاب شرح علل الترمذی ہے، ایک کتاب الوسائل فی شرح الشمائل ، کافی ضخیم کتاب ہے۔ طویل عرصہ سے میرا فتاویٰ بالخصوص ہفت روزہ الاعتصام میں چھپتا رہا ہے اور اس کی ایک جلد تقریباً نو سو صفحات پر مشتمل ہے جس کا نام فتاویٰ ثنایہ مدنیہ ہے اور بازار میں دستیاب ہے اس کا امتیاز یہ ہے کہ اس میں بہت سارے جدید مسائل پر بحث ہے۔ شاید دوسرے فتاویٰ میں دستیاب نہ ہو سکے۔ دوسری جلد تیاری کے مراحل میں ہے جس میں کتاب الصلوٰۃ کے مسائل بہت تفصیل سے ہیں اور تیسری اس کے بعد آئے گی۔ ان شاء اللہ ضیائے حدیث: آپ نے ایک لمبا عرصہ تعلیم و تدریس میں گزارا ہے۔ یہ فرمائیں کہ اچھے استاد کے لیے تدریس کاکیا طریقہ ہونا چاہیے؟ حافظ صاحب:استاد نے جو کتاب پڑھانی ہے وہ پہلے خود اس کی تیاری کرے۔ ہمارے شیخ حافظ محدث روپڑی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے۔ ’’استاد کو پڑھانے والے شاگرد ہوتے ہیں۔‘‘ جب محدث روپڑی یہ بات فرماتے تو مولانا عبد السلام کیلانی کبھی کبھی کہتے:شیخ صاحب! اس کامطلب ہے کہ