کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 48
دمشق کے رہنے والے ہیں۔ مجلس کا نام مجلس فقہاء الشریعہ تجویز کیا گیا۔ یہ مجلس ۵۰ علماء پر مشتمل تھی جس میں میں اور مولانا ارشاد الحق اثری صاحب بھی شامل تھے۔ پہلے اس مجلس کے سالانہ اجلاس زیادہ تر امریکہ میں ہوئے۔ ۱۱/۹ کے بعد جب امریکہ میں مشکلات پیش آنے لگیں تو اب اس کے اجلاس مشرق وسطیٰ وغیرہ کے ممالک میں ہوتے ہیں۔ امریکہ کے سفر کے دوران حافظ عبدالوحید صاحب، جو ہیوسٹن میں دارالسلام برانچ کے انچارج ہیں، ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
امریکہ میں میرے سینکڑوں شاگرد ہیں جو اللہ کے فضل و کرم سے وہاں بھرپور طریقے سے دعوت و تبلیغ کا کام کررہے ہیں۔ امریکہ کے سفر کے دوران ہی میرے بہت سے شاگردوں نے مجھ سے اجازۃ الروایہ لی۔
میں آپ کو ایک اہم واقعہ سناتا ہوں۔ مجلس فقہاء الشریعہ کی تیسری سالانہ مجلس امریکہ کے شہر ہوسٹن میں تھی۔ میں بھی اس مجلس میں شریک تھا۔فراغت کے بعد میں نے سعودیہ کا سفر کرنا تھا۔ اس لیے کہ حج کے دن قریب تھے۔ پہلے میں لندن گیا۔ لندن سے میں نے جدہ جانا تھا اور حج بالکل قریب تھا۔ جدہ سے ریاض اور ریاض سے مکہ پہنچا۔ مکہ میں کچھ دوستوں کے پاس اپنا سامان رکھوایا۔ کرنسی اپنے حزام(بیلٹ) میں اپنے پاس رکھ لی تاکہ محفوظ رہے۔ کرنسی میں امریکی ڈالر، سعودی ریال اور پاکستانی روپے شامل تھے۔ آدمی رات کا وقت تھا، میں جمرات پر تھا کہ میرے پیسے گر گئے۔ میں نے انا للہ پڑھا اور اللہ سے دعا بھی کی۔ یا اللہ ! آسانی کردے۔ حج سے فارغ ہو کر میں ریاض چلا گیا۔
دوسرے دن مجھے جدہ سے فون آیا۔ فون کرنے والا کہہ رہا تھا آپ کی گم شدہ رقم میرے پاس ہے۔ آپ وہ حاصل کرلیں۔ اس نے مجھے اپنا ایڈریس لکھوا دیا۔ ریاض میں میرے بہت سے شاگرد ہیں۔ ان میں سے ایک عبدالستار قاسم ہے، اس کو میں نے فون کیا تو وہ جدہ چلا گیا۔ امانت کی نشانیاں بتانے پر امانت لے لی۔
جب وہ میرے پاس آیا تو میں نے دیکھا اللہ کے فضل سے اس میں سے کچھ بھی کم نہ تھا۔ سبحان اللہ! حج کے موقع پر گمشدہ رقم کااس طرح واپس مل جانا خاص اللہ کا فضل و کرم تھا اورقرآن و حدیث کی خدمت کا نتیجہ تھا۔
ضیائے حدیث: آپ کی پسندیدہ کتب کون سی ہیں؟
حافظ صاحب: ’’فتح الباری‘‘ میری پسندیدہ کتاب ہے اس کا میں نے اتنا مطالعہ کیا ہے کہ جیسے مجھے حفظ ہو چکی ہے۔ ’’فتح الباری‘‘ میں وہ مسائل ذکر ہوئے ہیں کہ جو عام کتابوں میں نہیں ہیں۔
اس کتاب سے جب بھی کوئی مسئلہ تلاش کرنا ہو مجھے فہرست دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جس طرح مجھے قرآن