کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 46
فیصلہ ہم نے یہ کیا کہ دین کی خدمت کرنی ہے اپنے قدموں پر کھڑے ہو کر کسی کا دست نگر نہیں بننا۔ حافظ احسان الٰہی ظہیر کا مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ سے بہت رابطہ اور تعلق تھا۔ ان کے مدینہ یونیورسٹی میں ابھی دو سال باقی تھے، ایک دن کہنے لگے: میرا دل چاہتا ہے میں فی الفور پاکستان چلا جاؤ اور جو مولانا اسماعیل چاہتے ہیں اس کے مطابق کام کروں۔ لیکن بہرحال انھوں نے اپنی تعلیم ادھوری نہیں چھوڑی۔ بہت اچھا کیا جو پہلے اپنی تعلیم مکمل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب حافظ احسان الٰہی واپس آئے تو اس کے بعد جو کام انھوں نے کیے دنیا ان کی معترف ہے۔ آج کے طلبہ کو میں یہی نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وہ پہلے اپنی تعلیم مکمل کریں بعد میں کچھ اور کریں۔ حافظ احسان الٰہی ظہیر کے تذکرہ سے ایک بات یاد آئی۔ حافظ صاحب اہل حدیث کے بہت والا و شیدا اور فریفتہ تھے۔ مدینہ یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی میں ہی ان کا حلقہ احباب بہت وسیع ہو چکا تھا۔ ان کے حلقہ احباب میں تمام مکاتب فکر کے لوگ تھے۔ اس کے باوجود حافظ صاحب قاطع شرک و بدعت تھے۔ ایک دفعہ پاکستان سے تمام مکاتب فکر پر مشتمل علماء کا ایک وفد سعودی عرب گیا۔ وفد میں جامعہ حزب الاحناف لاہور کے مہتمم مولانا محمود احمد رضوی بھی تھے۔ وفد کی امام کعبہ سے ملاقات تھی۔اور تعارف کا فریضہ حافظ احسان الٰہی کے ذمہ تھا۔ دورانِ تعارف جب مولانا محمود رضوی کی باری آئی تو حافظ صاحب ان کی طرف اشارہ کرکے بڑے دبنگ لہجہ میں کہنے لگے: ’’ھذا قبوری‘‘( یہ قبر پرست ہیں) مولانا رضوی حافظ صاحب کی بات سن کر سہم گئے۔ الغرض ! حافظ احسان الٰہی ظہیر حق کہنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔ ضیائے حدیث: آپ جماعتی سرگرمیوں سے ساری زندگی الگ تھلگ رہے ہیں، اس کی کیا وجہ ہے ؟ حافظ صاحب: میں سمجھتا ہوں کہ جماعتی سرگرمیوں میں پڑنے سے علم کا نقصان ہوتا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ علمی کام کیا جائے تاکہ آثار باقی رہ جائیں۔ میں نے ایک دفعہ ارادہ کیا تھا کہ ’’ مجلس کبار العلماء اہل حدیث باکستان‘‘ کے نام سے کبار علماء پر مشتمل ایک مجلس بنائیں تاکہ معاشرے کو جو جدید قسم کے مسائل درپیش ہیں وہ حل کیے جائیں۔ دوسرے تمام مسالک کے کبار علماء کی ایسی مجلسیں موجود ہیں۔ اہل حدیث علماء کی ایسی کوئی مجلس نہیں۔ اس مقصد کی خاطر جید اہل حدیث علماء کا ایک اجلاس کوٹ عبدالمالک(لاہور) میں طلب کیا گیا جس میں کراچی سے پشاور تک کے ۴۰ کے قریب علماء شریک ہوئے تھے۔ مجلس بلانے کا مقصد یہ تھا کہ جید علماء کی راہنمائی میں کام کریں۔ مجلس میں جتنے علماء بھی