کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 44
تھے۔ ان کی گفتگو بعض دفعہ فلسفیانہ ہوتی تھی۔
فلسفیانہ گفتگو کا رنگ ڈھنگ دیکھ کر عربی استاد کہنے لگے: ’’ ہم نے پاکستان سے محدث لانا تھا لیکن یہ تو محدث کی بجائے فلسفی آگئے ہیں۔‘‘
حافظ صاحب ایک سال تک وہاں رہے۔ وہاں انھوں نے ایمان کی بحث پر تقریباًایک گھنٹہ لیکچر بھی دیا تھا اور جن لوگوں نے وہ لیکچر سنا تھا وہی جانتے ہیں کہ حافظ صاحب مرحوم کے علم کی کتنی گہرائی تھی۔ سب ہی ان کی گفتگو سے بہت متاثر ہوئے۔ حافظ صاحب کے مشہور شاگردوں میں سے ایک شاگرد تھے: محمد ابراہیم، وہ ان کے خصوصی شاگرد تھے۔ اور ان سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ وہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد کینیا چلے گئے۔ اور غالباً اب تک کینیا میں ہیں۔ حافظ صاحب کے لیکچر، دروس ، اسباق اور تقریروں کے اکثر و بیشتر نوٹس ان کے پاس تھے۔
ضیائے حدیث: آپ وہاں کتنا عرصہ رہے ہیں اور کون کون سی کتابیں پڑھی ہیں؟
حافظ صاحب: میں وہاں تقریباً پانچ سال رہا ہوں۔ وہاں میں نے بلوغ المرام پڑھی لیکن اس طرح پڑھی کہ جس طرح پڑھنے کا حق ہے۔ پاکستان میں حافظ محدث روپڑی سے بلوغ المرام دوسرے سال میں پڑھی تھی۔ یہاں کی تدریس اور وہاں کی تدریس میں فرق ہے۔ یہاں کی تدریس علماء کے لیے سطحی طور پر کافی ہوتی ہے وہاں پڑھنے سے انسان کو مجتہدانہ بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ وہاں علماء کا طریقہ یہ ہے کہ وہ پہلے حدیث کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں، لغوی تشریح بتاتے ہیں، جدید مسائل کی بھی تشریح کرتے ہیں۔ تدریس کا یہ انداز یہاں نہیں ہے۔
ضیائے حدیث: ’’بلوغ المرام‘‘ کے علاوہ آپ نے کون سی کتابیں پڑھی ہیں؟
حافظ صاحب: وہاں چار سال میں تو بمشکل بلوغ المرام ہی ختم ہوتی ہے۔
میں بلوغ المرام کی شرح سبل السلام پر ہی اکتفا نہیں کرتا تھا بلکہ اس وقت مسجد نبوی میں مکتبہ محمودیہ تھا، اس مکتبہ کی سب کتابیں میں نے دیکھیں۔ وہاں مجھے ایک بہت ضخیم قلمی کتاب نظر آئی جس کا نام تھا:’’بدر التمام‘‘ یہ بلوغ المرام کی شرح ہے۔ صنعانی کی سبل السلام کی اصل بدر التمام ہے۔ سبل السلام اوربدرالتمام میں مجھے کوئی فرق نظر نہ آیا۔
پھر میں نے وہاں نواب صدیق الحسن خان کی کتاب ’’فتح العلام شرح بلوغ المرام‘‘ دیکھی۔ فتح العلام، سبل السلام