کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 43
کر لیا اور ان سے درخواست کی کہ چل کر دیکھ لیں۔ حافظ محمد گوندلوی صاحب تشریف لائے اور مکان میں داخل ہوتے ہی کہنے لگے کہ ’’یہاں میں نے رہائش نہیں رکھنی کیونکہ یہاں سے مجھے شیطانوں کی بدبو آتی ہے۔‘‘ ہم متعجب ہوئے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ جب تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ عبدالغفور اور اکبر کا والد بہت بڑا مشرک اور بدعتی تھا۔ وہ مدینہ سے بہت کم نکلا تھا۔ اس کی کوشش ہوتی تھی کہ میں مدینہ میں ہی رہوں۔ مجھے موت آئے تو مدینہ میں آئے۔ ایک دفعہ اسے کسی اشد ضرورت کی وجہ سے پاکستان آنا پڑا۔ کراچی سے لاہور کی طرف ریل پر جا رہا تھا کہ اس کی موت ہوگئی۔ دہلی دروازے کے قرب و جوار میں اس کی قبر بن گئی اور اب غالباً اس قبر کی پوجا ہوتی ہے۔ خیر اس کے بعد ہم نے بئر بضاعہ کے قریب حافظ صاحب کے لیے مکان تلاش کیا۔ میں اور کیلانی صاحب اکثر یونیورسٹی کے بعد کا وقت حافظ صاحب کے ساتھ اسی مکان میں گزارتے تھے۔ جب حافظ صاحب نے تدریسی عمل شروع کردیا تو مولانا عبد السلام کیلانی اور میں اکثر اوقات ان کے ساتھ رہتے تھے کہ پاکستان میں ان سے پڑھنے کا موقع نہیں ملا تو اب یہاں پڑھنا چاہیے۔ حافظ صاحب کو وہاں بلوغ المرام پڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ حافظ گوندلوی رحمہ اللہ کہا کرتے تھے مجھے بڑی تکلیف ہے یہ پہلا سال ہے کہ میں بخاری شریف نہیں پڑھا سکا۔ میں اور مولانا عبد السلام کیلانی نے عرض کی کہ آپ سے بخاری شریف پڑھنے کی سعادت ہم سمیٹنا چاہتے ہیں۔ اس طرح میں اور مولانا عبد السلام نے حافظ صاحب سے بخاری شریف پڑھنا شروع کردی۔ سبحان اللہ! وہ کیا خوبصورت ایام تھے۔ جگہ مسجد نبوی جیسی۔ جہاں امام محمد بن اسماعیل البخاری نے صحیح بخاری تالیف کی اور معلم و مدرس حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ جیسے۔ یوں تو پاکستان میں میں دو دفعہ صحیح بخاری کی تکمیل کر چکا تھا لیکن مسجد نبوی میں بخاری شریف پڑھنے سے ایمان اور یقین کی بہاریں سمیٹیں وہ ہمیشہ یاد اور تروتازہ رہیں گی۔ حافظ صاحب نے مدینہ یونیورسٹی میں تدریس تو شروع کردی لیکن ان کے لیے بعض مشکلات بھی وہاں پیدا ہوئی تھیں، مثلاً وہ پاکستان میں چٹائی پر بیٹھ کر پڑھانے کے عادی تھے۔ وہاں انھیں کرسی پر بیٹھ کر پڑھانا پڑتا تھا جس سے انھیں دقت ہوتی تھی۔ حافظ صاحب کی عربی پر بہت اچھی دسترس تھی۔ لیکن یونیورسٹی میں بولی جانے والی عربی زبان کے عامی الفاظ سمجھنے میں انھیں مشکل پیش آتی تھی۔ اسی طرح حافظ صاحب کی گفتگو بہت عالمانہ ہوتی تھی مگر ان کے طلبہ بہت سطحی قسم کے تھے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ بھی حافظ صاحب کی قابلیت کو نہیں پہنچتے