کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 42
خود پکاتے تھے۔ ۲۰، ۲۵ اساتذہ تھے۔ عمارت بھی سادہ سی تھی۔ لیکن اہم ا ور نہ بھولنے والی چیز اعلیٰ تعلیمی معیار تھا۔ مدینہ یونیورسٹی کی تاسیسی مجلس میں پاکستان سے سید داؤد غزنوی اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہما کوبلایا گیا تھا۔
ضیائے حدیث: حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کو بھی تدریس کے لیے بلایا گیا تھا؟
حافظ صاحب: وہ قصہ اصل میں یہ تھا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ تین سال تک مدینہ یونیورسٹی میں مدرس رہے۔ شیخ البانی کو اللہ تعالیٰ نے بہت علم سے نوازا تھا۔ مدینہ یونیورسٹی میں ان کے حاسد پیدا ہوگئے جو بالائی سطح پر شیخ کے بارے میں شکایات پہنچاتے رہتے تھے۔ اس وجہ سے ایک وقت ایسا آیا کہ شیخ کو فارغ کردیا گیا۔ اس کے بعد محسوس ہوا کہ اب یونیورسٹی میں کوئی ایسا عالم چاہیے جو شیخ البانی کے پائے کا ہو۔ اس مقصد کی خاطر ایک بہت بڑے سعودی عالم، جو اب بھی بقید حیات ہیں مگر بہت ضعیف ہوچکے ہیں اور میرے استاد بھی ہیں، عازم پاکستان ہوئے۔ وہ سب سے پہلے کراچی مدرسہ رحمانیہ پہنچے۔ وہاں اس وقت مولانا عبدالغفار حسن تدریس کے فرائض انجام دے رہے تھے اور عربی بھی بول سکتے تھے۔ سعودی شیخ مولانا عبدالغفارحسن سے متاثر ہوئے اور ان کا انتخاب کر لیا۔ پھر وہ پنجاب کی طرف آگئے۔ اس وقت گوجرانوالہ میں مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی بہت علمی شہرت تھی۔
سعودی شیخ مولانا اسماعیل سلفی سے ملے اور ان کو سعودیہ آنے کی دعوت دی۔ مولانا اسماعیل سلفی فرمانے لگے: ’’ میں ابھی تک جنس بازار نہیں بنا، جب میں جنس بازار بن گیا تو آپ بھی میرا بھاؤ لگانے آجانا۔‘‘ اس طرح مولانا اسماعیل سلفی نے جانے سے انکار کردیا۔ مولانا سلفی رحمہ اللہ استقامت ، تقویٰ ، عزیمت کا کوہِ گراں اور علم کا سمندر تھے۔ انھوں نے ساری زندگی ایک جگہ گزار دی۔ جب وہ گوجرانوالہ آئے تو بالکل نوجوان تھے۔ ان کا جنازہ بھی گوجرانوالہ سے اٹھا۔
استقامت، دلجمعی اور ساری زندگی ایک جگہ کام کرنے کے نتائج آج آپ کے سامنے ہیں۔ اس کے بعد سعودی شیخ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ سے ملے اور بڑی کوشش کرکے انھیں سعودیہ جانے پر قائل کرلیا۔ حافظ صاحب جب مدینہ یونیورسٹی گئے تو ساتھ ان کا بیٹا مسعود بھی تھا۔ میں، مولانا عبدالسلام کیلانی اور دیگر اہل حدیث علماء و طلبہ نے ان کا استقبال کیا۔ اس کے بعد پہلا مرحلہ مکان کا تھا۔ ہم مکان کی تلاش میں لگ گئے۔ یونیورسٹی میں ہمارے ایک ساتھی تھے عبدالغفور عقیدے کے دیوبندی۔ ان کا یک بھائی اکبر تھا، وہ عقیدے کا اچھا تھا۔ وہ دونوں پاکستانی تھے مگر وہاں کے رہائشی بن گئے تھے۔ ان کا مکان تھا ہم نے وہ مکان حافظ صاحب کے لیے پسند