کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 41
عبد اللہ صاحب کا بہت زیادہ اصرار اور زور رہا۔ غالباً ۱۹۶۲ء میں دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کی آل پاکستان سالانہ کانفرنس ہوئی تھی وہاں بھی یہ مسئلہ اٹھایا گیا تھا اور وہاں صدر کی بجائے امیر کا عہدہ تو منظور ہو گیا لیکن نظام نہیں بدلا۔ ضیائے حدیث: حافظ صاحب! آئیں اب مدینہ کی طرف چلتے ہیں۔ حافظ صاحب: ہاں ! جب کراچی سے ہم ہوائی جہاز میں سوار ہوئے تو راستے میں ہمیں ایک دیوبندی عالم دین محمد ناظم ندوی مل گئے ، وہ ہمارے ساتھی بن گئے۔ میرا اور مولانا عبد السلام کیلانی کا یہ پہلا سفر تھا، اس لیے ہم کچھ بھی نہ جانتے تھے ۔ جب ہم جدہ اترے تو مولانا ناظم کاکوئی جاننے والا انھیں لینے ائیر پورٹ آیا ہوا تھا۔ رات ہم ان کے پاس رہے۔ اس کے بعد ہم عمرہ کرکے مدینہ گئے۔ مدینہ یونیورسٹی پہنچ کر شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ملاقات کی۔ انھیں بتایا کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں اور حافظ صاحب کے شاگرد ہیں۔ شیخ ابن باز حافظ صاحب کا نام سن کر بہت خوش ہوئے اور ہمیں بہت قدرو منزلت سے نوازا۔ ایک اتفاق کی بات یہ ہوئی کہ ہم شیخ ابن باز کے دفتر میں جا کر بیٹھے ہی تھے کہ ناگہاں میں نے شیخ کے دفتر میں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک بہت بڑے قادیانی کو بیٹھے دیکھا۔ مسجد قدس کے قریب قادیانی لاہوری گروپ کا بہت بڑا مرکز ہے۔ اس قادیانی کا تعلق اس مرکز سے تھا اور اس کا نام عبداللطیف تھا۔ جب عبد اللطیف نے ہمیں دیکھا تو فوراًبھاگ کھڑا ہوا۔ ہم نے شیخ سے کہا یہ مرزائی ہے اسے پکڑو! شیخ نے اس کے پیچھے فوراً آدمی دوڑایا مگر وہ مرزائی ایسے غائب ہوا کہ کچھ پتہ نہ چل سکا۔ ضیائے حدیث: کہا جاتا ہے کہ آپ اور مولانا عبد السلام کیلانی پاکستان سے جانے والوں میں سابقون الاوّلون تھے؟ حافظ صاحب: ایسی بات نہیں، کچھ پاکستانی طلبہ ہم سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے۔ حافظ احسان الٰہی ظہیر بھی ان میں شامل تھے گو کہ حافظ احسان الٰہی ظہیر بغرض تعلیم نہیں بلکہ بغرض سیاحت گئے تھے۔ جب وہ مدینہ یونیورسٹی گئے تو وہاں اساتذہ سے ان کا تعارف ہو گیا اور ان کو داخلہ مل گیا۔ حافظ احسان الٰہی سے بھی پہلے جو پاکستانی طلبہ مدینہ پہنچے ان میں ڈاکٹر صہیب حسن، بشیر احمد جوہری ، عبدالرحمن ناصر، یوسف کاظم اور دیگر شامل تھے۔ ضیائے حدیث: جس دور میں آپ مدینہ یونیورسٹی گئے اس دور میں یونیورسٹی کی کیا کیفیت تھی؟ حافظ صاحب: اس دور میں مدینہ یونیورسٹی میں ڈھائی تین سو طالب علم تھے اور چند ایک کمرے تھے۔ طلبہ کھانا