کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 40
کوٹھی تھی ، وہاں پڑھاتے تھے۔ جب کراچی جاتے تو وہاں سے بذریعہ ہوائی جہاز جمعہ پڑھانے کے لیے لاہور اور لاہور سے براستہ سڑک گوجرانوالہ پہنچتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے وہ گوجرانوالہ نہ پہنچ سکتے تو پھر حافظ عبدالقادر ان کی جگہ جمعہ پڑھاتے تھے۔ اگر حافظ عبد القادر بھی مصروف ہوتے تو حافظ عبد اللہ محدث روپڑی جمعہ کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی نے ایک دفعہ قصہ سنایا کہ میں گوجرانوالہ جمعہ پڑھانے گیا۔ راستے میں کچھ لیٹ ہو گیا۔ جب مسجد میں پہنچا تو دوسری اذان ہورہی تھی اور منبر پر حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ تشریف فرما تھے۔ جب انھوں نے مجھے دیکھا تو احتراماً نیچے اتر آئے اور کہنے لگے: ’’اب حافظ صاحب آچکے ہیں لہٰذا جمعہ وہی پڑھائیں گے۔ ان کی موجودگی میں میرا منبر پر بیٹھنا مناسب نہیں ہے۔‘‘ اس واقعہ سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اس وقت کے علماء اور شیوخ کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے کتنا احترام تھا۔ ضیائے حدیث: آپ نے علماء کے باہمی احترام کی بات کی ہے میں یہاں ایک سوال آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ علمائے روپڑ اور علمائے غزنویہ کے مولانا ثناء اللہ امرتسری سے اختلاف کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ حافظ صاحب: روپڑی خاندان علمائے غزنویہ کا شاگرد ہے۔ مولانا حافظ عبد اللہ روپڑی امام عبد الجبار غزنوی رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں۔ اصل میں یہ اختالف غزنوی خاندان کا مولاناثناء اللہ امرتسری سے تھا جو روپڑی علماء کے گلے پڑ گیا۔ مولانا ثناء اللہ سلف کے عقائد کے خلاف اسماء و صفات و استویٰ علی العرش وغیرہ مسائل میں معتزلہ کی طرح تاویل کے قائل تھے۔ جسکی تفصیل’’ الاربعین‘‘ میں ہے اگرچہ ملک عبدالعزیز بن سعود کی کوشش سے انھوں نے اس سے رجوع کر لیا تھا لیکن عملی طور پر ان کے عقائد کتابوں میں اسی طرح ہیں جس طرح پہلے تھے جن کی اصلاح ضروری ہے۔ ضیائے حدیث: میرا سوال یہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد مولانا داؤد غزنوی اور مولانا اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہما نے مل کر ’’مرکزی جمعیت اہل حدیث ‘‘ کے نام سے جماعت بنائی لیکن علمائے روپڑ نہ تو مرکزی جمعیت اہل حدیث کا حصہ بنے نہ اس کے ساتھ چلے، نہ ہی اسے تسلیم کیا بلکہ انھوں نے ’’جماعت اہل حدیث‘‘ کے نام سے الگ جماعت بنائی جو آج تک چلی آرہی ہے؟ حافظ صاحب: یہ سیاسی نہیں اجتہادی اختلاف تھا۔ مولانا حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کہتے تھے کہ شرع میں صدارت نہیں امارت ہے۔ وہ کہتے تھے کہ صدارت کی بجائے امارت قائم کی جائے۔ اس سلسلہ میں حافظ