کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 398
صرف کاغذات کی حد تک ہے۔ آپ یہ فرمائیں کہ بخاری شریف کی حدیث میں: (( مَنِ ادَّعَی إِلَی غَیْرِ أَبِیہِ وَہْوَ یَعْلَمُ فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ )) [1] مذکورہ معاملے پر منطبق نہیں ہوتی؟ کیا درست ہے کہ جب بندہ حقیقت میں غیر باپ کو اپنا حقیقی باپ سمجھے، تب اس حدیث کا اطلاق ہو گا؟ کیا ان لوگوں کو توبہ کے لیے واپس آنا ضروری ہے یا اسی طرح وہاں جعلی باپ سے منسوب رہ سکتے ہیں؟ نیز ان کی کمائی کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ ایک عالم دین کا فتویٰ ہے کہ چونکہ ان کی کمائی کی بنیاد جھوٹ پر ہے۔ اس لیے کمائی حرام ہے۔ میرا ایک بھائی بھی غیر باپ کی طرف منسوب ہو کر بینک کی نوکری کرتا ہے حدیث میں ہے کہ: سود لینے والا، دینے والا، لکھنے والا، اور گواہ لعنتی ہیں۔‘‘ کیا بینک کی چوکیداری کرنا بھی اس زمرے میں آتا ہے ؟ کیا میرے بھائی کی وہ کمائی جو انھوں نے بینک کی نوکری سے حاصل کی ہے حلال ہے ؟ ہم اس کو بینک نوکری چھڑانا چاہتے ہیں۔ ایسی صورت میں سابقہ تنخواہوں کی رقم جو ہمارے پاس جمع ہے کیا وہ رقم ’’فی سبیل اللہ‘‘ خرچ کردینی چاہیے؟ ( محمد شفیق بن شیر بہادر) (۳ اگست ۲۰۰۱ء) جواب : حقیقی باپ سے اعراض کرکے دوسرے کی طرف انتساب بلاشبہ حرام ہے۔ کیونکہ کتاب و سنت کی نصوص میں اس کی صراحت موجود ہے لیکن جب کسی کا نسب معروف ہو تو دوسرے کی طرف نسبت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس کی واضح مثال حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ ہیں جن کے باپ کا نام تو عمرو تھا لیکن یہ الاسود بن عبد یغوث زہری کی طرف منسوب ہیں کیونکہ اس کے متبنّیٰ تھے۔[2] صحیح بخاری کے مشہور شارح علامہ ابن بطال فرماتے ہیں کہ حدیث:’مَنِ ادَّعَی إِلَی غَیْرِ أَبِیہِ وَہْوَ یَعْلَمُ فَالْجَنَّۃُ عَلَیْہِ حَرَامٌ [3] کے یہ معنی نہیں جو اپنے غیر باپ کی طرف منسوب ہو وہ اس وعید میں داخل ہے ، جیسے مقداد بن اسود ہیں، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جو جان بوجھ کر اختیاری حالت میں اپنا سلسلۂ نسب تبدیل کرلیتا ہے کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں لوگ اس کو برا نہیں سمجھتے تھے کہ آدمی دوسرے کالے پالک بن کر اس کی اولاد بن جائے جس کا متبنٰی ہے یہاں تک کہ اللہ عزوجل کا فرمان نازل ہوا: ﴿ اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَآئِہِمْ ہُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ ﴾ (الاحزاب:۵) اور اس کا ارشاد ہے کہ ﴿ وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآئَکُمْ اَبْنَآئَکُمْ ﴾ (الاحزاب:۴) چنانچہ ہر ایک اپنے حقیقی باپ کی
[1] صحیح البخاری، باب مَنِ ادَّعَی إِلَی غَیْرِ أَبِیہِ۔ [2] فتح الباری:۹/۱۳۵ [3] صحیح البخاری، باب مَنِ ادَّعَی إِلَی غَیْرِ أَبِیہِ۔