کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 394
شریعت اور اسلامی فقہ کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کیا باپ ان حالات میں بچوں کے خرچہ کا ذمہ دار ہے؟ جب کہ بچوں کو باپ سے ملنے بھی نہیں دیا جاتا۔ اور اس وقت ان کا ملکی مروّجہ قانون کے مطابق واپس حاصل کرنا بھی ناممکن ہے۔ (ایک گنہگار بندہ، باغبانپورہ لاہور) (۹ جون ۱۹۹۵ء) جواب :اصلاًاولاد کا نفقہ بذمہ والد ہے۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿ وَّ ارْزُقُوْہُمْ فِیْہَا وَ اکْسُوْہُمْ وَ قُوْلُوْا لَہُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا ﴾ (النساء:۵) ’’اس میں سے ان کو کھلاتے اور پہناتے رہو اور ان سے معقول باتیں کہتے رہو۔‘‘ اور حدیث میں ہے: (( بَابُ وُجُوبِ النَّفَقَۃِ عَلَی الْأَہْلِ وَالْعِیَالِ ۔ )) اور ’’صحیح بخاری‘‘ کی روایت میں اَلْوَلَد کے بجائے اَلْاِبْن کے الفاظ ہیں: ’ قَوْلُہُ بَابُ وُجُوبِ النَّفَقَۃِ عَلَی الْأَہْلِ وَالْعِیَالِ ‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ زیر حدیث ہذا رقمطراز ہیں: (( وَاسْتُدِلَّ بِہِ عَلَی أَنَّ مَنْ کَانَ مِنَ الْأَوْلَادِ لَہُ مَالٌ أَوْ حِرْفَۃٌ لَا تَجِبُ نَفَقَتُہُ عَلَی الْأَبِ لِأَنَّ الَّذِی یَقُولُ إِلَی مِنْ تَدَعُنِی إِنَّمَا ہُوَ مَنْ لَا یَرْجِعُ إِلَی شَیْئٍ سِوَی نَفَقَۃِ الْأَبِ وَمَنْ لَہُ حِرْفَۃٌ أَوْ مَالٌ لَا یَحْتَاجُ إِلَی قَوْلِ ذَلِکَ ۔))[1] یعنی ’’ اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے جس اولاد کا کوئی مال یا پیشہ اس کانفقہ باپ کے ذمہ واجب نہیں کیوں کہ جو یہ کہتا ہے کہ تو مجھے کس کے سپرد کرے گا۔ یہ وہ اولاد ہے جس کا سہارا نفقہ والد کے سوا کوئی نہیں اور جس کا کوئی پیشہ یا مال ہو، اُسے یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن مسئولہ صورت میں تحریری معاہدہ کے مطابق صغار اولاد کے خرچہ کی ذمہ دار والدہ ہے۔ ‘‘ صحیح حدیث میں ہے: (( الْمُسْلِمُونَ عَلَی شُرُوطِہِمْ۔)) [2] یعنی ’’مسلمان اپنی شرطوں پر ہیں۔‘‘ جب کہ اس کے پاس ذرائع آمدن بھی موجود ہیں لہٰذا مطابق عہد عورت بچوں کے والد سے بایں صورت خرچہ کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔
[1] فتح الباری:۹/۵۰۱ [2] سنن أبی داؤد،بَابٌ فِی الصُّلْحِ،رقم:۳۵۹۴، سنن الترمذی، بَابُ مَا ذُکِرَ عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الصُّلْحِ بَیْنَ النَّاسِ،رقم:۱۳۵۲