کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 39
کر واپس آجایا کرتے تھے اور اشکالات حافظ صاحب سے حل کروایا کرتے تھے۔اور جامعہ مدنیہ کے استاد مولانا کریم اللہ صاحب فنون کی کتب کے ماہر تھے۔ ان کا تعلق صوبہ خیبر پی کے سے تھا۔ ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ وہ بڑے ذوق و شوق اور محبت سے ہمیں پڑھاتے تھے ۔ ان سے ہم نے فقہ، اصولِ فقہ وغیرہ پڑھیں۔ نیلا گنبد میں ہی ایک اور مدرسہ جامعہ رحیمیہ تھا، وہاں مولانا محبوب الٰہی سے فنون کی کچھ کتابیں پڑھیں۔ نئی انارکلی کے سرے مکی مسجد میں ایک مدرسہ تھا وہاں سے بھی فنون کی کتب پڑھیں۔ وہاں مختصر المعانی کے دروس میں مولانا احمد شاکر بھی ہمارے ساتھ تھے۔ مدینہ یونیورسٹی جانے سے پہلے ہی میری اور مولانا عبدالسلام کیلانی کی عربی زبان پر اچھی خاصی دسترس ہو گئی تھی۔ مسجد قدس میں ایک استاد مولانا قادر بخش عربی کے بہت بڑے ماہر تھے۔ عربی زبان ہم دونوں نے ان سے سیکھی تھی۔ مولانا قادر بخش نے عربی گرائمر کے متعلق اوجز القواعد کے نام سے ایک کتاب تیار کی تھی جس کی کتابت مولانا عبد السلام نے کی تھی۔ یہ بہت عمدہ کتاب تھی۔ اس دور میں یہ کتاب چھپی بھی تھی بعد میں نایاب ہو گئی۔ میں نے اپنے استاد مولاناعبدالجبار ملک پوری صاحب سے فارسی زبان سیکھی تھی۔ مولانا قاری عبدالخالق مرحوم آف کراچی کے سسر مولانا راغب رحمانی کچھ عرصہ مسجد قدس میں رہے۔ تفسیر کی کچھ کتابیں ان سے پڑھی تھیں۔ ضیائے حدیث: سفر مدینہ کے بارے میں آگاہ فرمائیں۔ حافظ صاحب: اس وقت ہوائی جہازوں پر سفر بہت کم ہوتا تھا۔ زیادہ تر سفر بحری جہاز کے ذریعے ہوتا تھا،ہمارا سفر ہوائی جہاز کے ذریعے تھا۔ میں اور مولانا عبدالسلام کیلانی بذریعہ ریل لاہور سے کراچی پہنچے۔ ہمارے ساتھ رہنمائی کے لیے مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی رحمہ اللہ تھے۔ وہ کراچی میں ایک ہفتہ ہمارے ساتھ رہے۔ جب ہم جہاز پر بیٹھ گئے تو وہ واپس آئے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس وقت کے اساتذہ اپنے شاگردوں سے کتنی محبت کرتے اور ان کا کتنا اکرام کرتے تھے۔ احترام اور اکرام کی بات آئی ہے تو آپ کو ایک واقعہ سناتا چلوں۔ گوجرانوالہ کے محلہ آبادی حاکم رائے میں(بیرسٹر عثمان ابراہیم MNAکے والد)حاجی ابراہیم انصاری مرحوم کی مسجد( جامعہ اسلامیہ) میں مولانا حافظ اسماعیل صاحب روپڑی رحمہ اللہ جمعہ پڑھاتے تھے۔ حافظ اسماعیل چھ ماہ کے لیے بغرض تبلیغ کراچی بھی جایا کرتے تھے۔ اسی طرح نمازِ تراویح بھی وہ ہمیشہ کراچی میں بانی پاکستان کے مزار کے ساتھ حاجی عبد القیوم کی بہت بڑی