کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 388
یافتہ تھی۔ جب نکاح ہونے لگا تو پتہ چلا کہ لڑکی کی عدت ابھی باقی ہے۔ ہم چند آدمی مفتی صاحب کے پاس گئے تو انھوں نے کہا کہ لڑکی قسم کھائے کہ میرے اپنے خاوند کے ساتھ کوئی ازدواجی تعلقات نہ تھے اور عدت بھی پوری ہو چکی ہے تو پھر نکاح کرلیں۔ لڑکی نے قسم اٹھائی کہ میرے پہلے خاوند کے ساتھ ازدواجی تعلقات نہیں تھے لہٰذا ہم نے اس کا نکاح کروادیا اور گواہی بھی دی ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ لڑکی نے جھوٹ بولاہے، اس کی عدت بھی باقی تھی اور اس کے خاوند کے ساتھ ازدواجی تعلقات بھی تھے اور لڑکی کے ماں باپ اور دیگر ورثاء نے اس ساری بات کا علم ہونے کے باوجود کسی کو صحیح بات سے آگاہ نہیں کیا اور اب لڑکی ماں بھی بننے والی ہے … لہٰذا اب سوال یہ ہے: ۱۔کہ لڑکی کے ماں باپ پر کیا گناہ ہے ، کیونکہ انھوں نے اصل بات کو چھپایا ہے ؟ ۲۔لڑکی پر کیا گناہ ہے اس نے بھی اصل بات کو چھپایا اور جھوٹ بولا ہے ؟ ۳۔جو بچہ پیدا ہونے والا ہے اسے پہلے خاوند کی طرف منسوب کیاجائے گا یا دوسرے کی طرف ؟ ۴۔ہم نے نکاح میں گواہی دی اور ہمیں اصل صورت حال کا پتہ نہ تھا کیا ہم پر کوئی گناہ ہے؟ ۵۔جنھوں نے اصل صورت حال جانتے ہوئے بھی اصل بات چھپائی اور گواہی دی ان پر کیا گناہ یا کفارہ ہے ؟ ۶۔اور جب لڑکی کے موجودہ خاوند کو اصل صورتِ حال کا پتہ چلے تو کیا وہ نکاح باقی رکھے یا اسے طلاق دے؟ جواب : (۱) شرعاً عدت کے اندر نکاح کرنا حرام ہے ، قرآن میں ہے: ﴿ وَ لَا تَعْزِمُوْا عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتٰبُ اَجَلَہٗ ﴾ (البقرۃ: ۲۳۵) والدین اس جرم میں شریک ہیں انھیں بارگاہِ الٰہی میں تائب ہونا چاہیے ورنہ ڈر ہے کہیں قہر الٰہی نہ نازل ہو جائے۔ ۲۔اصل مجرم تو لڑکی ہے جس نے جرم کو چھپانے کی سازش کی۔ اسے بھی توبہ صادقہ کرنی چاہیے۔ ۳۔فیصلہ واقعاتی صورت کے مطابق ہو گا، اگر وطی جہالت کی وجہ سے ہوئی ہے تو بچہ والد کی طرف منسوب ہو گا اور علم کی صورت میں منسوب نہیں ہوگا۔[1] ۴۔عدمِ علم کی صورت میں گواہ مجرم نہیں پھر بھی اللہ رب العزت سے معافی کی درخواست کرنی چاہیے۔ ۵۔علم کے باوجود اس نکاح پر گواہ بننا بہت بڑا جرم ہے اللہ سے توبہ صادقہ کرنی چاہیے۔ ۶۔دوسرے خاوند سے فوراًعلیحدگی اختیار کرلینی چاہیے سب سے پہلے سابقہ خاوند کی بقیہ عدت گزارے۔ پھر دوسرے کی عدت پوری کرے، بعد میں بعض اقوال کے مطابق دوسرے شوہر سے نکاح کرنے کی گنجائش ہے۔ ملاحظہ ہو : المغنی ابن قدامہ:۱۱/۲۳۹۔
[1] المغنی ابن قدامہ:۱۱/۲۴۲