کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 38
کے گاؤں) کی پرانی مسجد کی چھت پر بیٹھ کر درسی کتابیں پڑھتے اور یاد کیا کرتے تھے۔ یہ بہت خوبصورت دن تھے۔ جنھیں میں ساری زندگی بھول نہیں سکتا۔ مولانا عبدالسلام کیلانی اور میرا آپس میں بہت پیار تھا۔ وہ میرے بہت اچھے ساتھی اور دوست تھے۔ زندگی کی آخری سانسوں تک میرا اوران کا تعلق رہا۔ لیکن اب کیلانی صاحب کے بچے مجھ سے نہیں ملتے۔ ملنے کے لیے آنا تو دور کی بات ہے فون پر بھی رابطہ نہیں کرتے۔ میں فون کرلوں تو کرلوں وہ نہیں کرتے۔ مولانا عبدالسلام میری زندگی کے ایک ساتھی تھے جو ہمیشہ مجھے یاد رہیں گے۔ نہ انھوں نے مجھے بھلایا تھا اور نہ میں ان کو مرتے دم تک بھلا سکتا ہوں۔ مدینہ یونیورسٹی میں بھی ہم دونوں اکٹھے گئے تھے۔ جب مدینہ یونیورسٹی جانے لگے تو اس وقت مسجد قدس میں ایک تقریب ہوئی تھی جس میں محدث دوراں حافظ محمد گوندلوی ،مولانا مودودی، مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ اور دیگر بڑے بڑے علماء مدعو تھے جنھوں نے مدینہ یونیورسٹی میں ہمارے داخلے پر خوشی کا اظہار کیا اور ہماری کامیابی کے لیے دعائیں دیں۔ ضیائے حدیث: مدینہ یونیورسٹی میں آپ کے داخلے کا سبب کیسے بنا؟ حافظ صاحب: میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی حج پر گئے تھے اس دوران مدینہ میں انکی ملاقات شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ سے ہوئی۔ شیخ ابن باز حافظ صاحب کی علمی ثقاہت سے بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے حافظ صاحب کو فتح الباری جو اپنی تعلیقات کے ساتھ چھپوائی تھی، وہ پیش کی۔ حافظ صاحب نے ’’فتح الباری‘‘ کی تعلیقات پر فی البدیہ اور بہت جامع تبصرہ کیا جسے سن کر شیخ ابن باز بہت متاثر ہوئے۔ اس کے بعد حافظ صاحب کی ملاقات شیخ محمد بن ابراہیم سے بھی ہوئی۔ شیخ محمد بن ابراہیم کے ذریعے سے محدث روپڑی کی شاہ سعود، شاہ فیصل اور دیگر سعودی زعماء سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ اس موقع پر حافظ صاحب مسجد قدس کے دو طلبہ کی مدینہ یونیورسٹی میں داخلے کی اجازت لے کر آئے تھے۔ ان طلبہ میں سے ایک میں تھا اور دوسرے مولانا عبدالسلام کیلانی تھے۔ ضیائے حدیث: آپ نے پیچھے ذکر کیا تھا کہ جب حافظ صاحب بیمار ہو گئے تو اس وقت فنون کی کچھ کتابیں باقی رہ گئی تھیں، یہ فرمائیں کہ ان کتابوں کی تکمیل کیسے ہوئی؟ حافظ صاحب: ہوا یہ کہ میں اور مولانا عبدالسلام کیلانی ہم دونوں نے حافظ محدث روپڑی صاحب سے بات کی اور ان کی اجازت سے نیلا گنبد لاہور میں دیوبندی احباب کے مدرسہ جامعہ مدنیہ داخل ہو گئے۔ ہم کتابیں پڑھ