کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 376
۱۔کیا میں رجوع کر سکتا ہوں جب کہ طلاق کو ایک سال چار ماہ گزر چکے ہیں۔ ۲۔اگر رجوع کر سکتا ہوں تو اس کاطریق کار کیا ہے ؟ (والسلام ) (ریاض) (۲۵ نومبر۱۹۹۴ء) جواب :بظاہر صورت مرقومہ میں طلاق رجعی واقع ہوئی تھی جو عدت گزرنے کی صورت میں بائن بن گئی جس سے زوجیت قطع ہو چکی ہے۔ اندریں صورت شوہر اگر نئے سرے سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو وہ ایسا کرنے کا مجاز ہے۔ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾ (البقرۃ: ۲۳۲) ’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہو جائے تو ان کو جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہو جائیں اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے مت روکو۔‘‘ اس آیت کا شانِ نزول معقل بن یسار کی ہمشیرہ کا قصہ ہے۔ خاوند نے بیوی کو طلاق دے کر دوبارہ نکاح کرنا چاہا لیکن بھائی درمیان میں رکاوٹ بن گیا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس بات سے منع کردیا۔اللہ کی رضا کے ساتھ وہ بھی راضی ہو گیا۔ فرمایا: (( فَقُلْتُ: الآنَ أَفْعَلُ یَا رَسُولَ اللّٰهِ ، قَالَ: فَزَوَّجَہَا إِیَّاہُ ۔)) [1] طلاقِ مغلّظہ کے بعد پچھتاوا اور رجوع کی خواہش: سوال : ایک شخص کی شادی ۱۹۲۲ء میں ہوئی۔ اہلیہ کے مطابق ۱۹۹۰ء میں پہلی طلاق دے دی تھی۔ رجوع ہوگیا۔ پھر دوسری طلاق ۱۹۹۲ء میں ہوئی۔ پھرسلسلۂ ازدواج چلتا رہا۔ (اس سے رجوع مراد ہے) ٭ اب ۱۷ نومبر ۱۹۹۶ء کو جب کہ ایک بیٹے کی شادی کے بعد کچھ مہمان موجود تھے۔ خدا معلوم ۱س کو کیا دورہ پڑا کہ سب کے سامنے اپنی اہلیہ کو تین دفعہ طلاق طلاق کہہ دیا۔ ٭ فوراً ہی بعد ۱س کی حالت غیر ہو گئی۔ پاگلوں کی طرح حرکتیں کرنے لگا۔ بچوں کی چیخیں سنی نہ جاتی تھیں۔ اب وہ معاملاتِ ازدواج کی بحالی چاہتا ہے۔ بے انتہاء پچھتاوے کا شکار ہے۔ ٭ مسلکاً خالص اہلحدیث ہے اور واپسی کی گنجائش چاہتا ہے۔ کثیر العیال ہے۔ شرمندہ ہے پچھتا رہا ہے۔ شرعاً صورتِ حال اور لائن آف ایکشن سے مطلع فرمائیے۔ اﷲ آپ کو جزاء دے۔( ضیاء الرحمن لاہور) (۱۸ اپریل ۱۹۹۷ء)
[1] صحیح البخاری،بَابُ مَنْ قَالَ : لاَ نِکَاحَ إِلَّا بِوَلِیٍّ،رقم:۵۱۳۰