کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 37
التوا میں ہے۔ لعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَذٰلِکَ اَمْرًا
ضیائے حدیث : مسجد قدس میں حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ کے علاوہ آپ کے کون کون سے استاد تھے؟
حافظ صاحب: حافظ عبد اللہ مرحوم کے علاوہ مولانا عبدہ الفلاح مرحوم بھی میرے استاد تھے۔ موطا امام مالک اور جامع ترمذی کا کچھ حصہ، حجۃ اللہ البالغہ، مسلم الثبوت اور دیگر کتابیں ان سے پڑھی ہیں۔ اس دوران یہ ہوا کہ مولانا عبدہٗ الفلاح رحمہ اللہ اوکاڑہ چلے گئے اور حافظ عبد اللہ محدث مرحوم حج پر چلے گئے۔ اس وقت زیادہ تر لوگ بذریعہ بحری جہاز حج پر جاتے تھے، اس لیے کافی وقت لگ جاتا تھا۔ حافظ صاحب کے حج پر جانے کے بعد مولانا عبدہٗ الفلاح رحمہ اللہ نے مجھے کہا:آپ اوکاڑہ آجاؤ۔‘‘ اس طرح چند ماہ میں اوکاڑہ رہا اورمولانا عبدہٗ کی علمی شخصیت سے بہت فائدہ اٹھایا۔ جب حافظ صاحب حج سے واپس آئے تو میں بھی مسجد قدس چلا گیا۔ واپس آکر تمام کتب کی حافظ صاحب سے تکمیل کی۔ حافظ صاحب بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ وہ محدث بھی تھے، مبلغ بھی ، مشفق استاد بھی تھے اور شیخ الحدیث بھی۔
انھوں نے اپنی زندگی قرآن و حدیث کی اشاعت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ اشاعت حدیث کی طرف ان کی رغبت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ ہم نے ’’مشکوٰۃ‘‘ کی تکمیل ان سے رات ۸ بجے کی اور صحیح مسلم کی تکمیل مولانا مجیب الرحمن( جواب امریکہ میں ہیں) سے رات ۱۲ بجے کی تھی، اس وقت گھڑیوں کا انتظام نہ تھا، نہ استاد تھکتے تھے، نہ پڑھنے والے تھکتے تھے۔ استاد بہت محنت اور جانفشانی سے پڑھایا کرتے تھے۔ اس کے بعد حافظ صاحب بیمار ہو گئے۔ پڑھانے کی مشکل پیش آنے لگی۔ ہماری فنون کی کچھ کتابیں رہتی تھیں۔
یہاں ایک دلچسپ بات یاد آئی، مولانا عبد السلام کیلانی مرحوم بھی میرے ساتھ مسجد قدس میں زیر تعلیم تھے۔ وہ مجھ سے تقریباً دو سال پیچھے تھے۔ انھیں عبارت پڑھنے میں دقت پیش آتی تھی۔ حافظ صاحب ڈانٹتے تھے ان کے ڈانٹنے کاطریقہ یہ ہوتا تھا کہ وہ بعض دفعہ کان پکڑ کر کھینچتے تھے۔ ایسا وہ شاذ و نادر ہی کرتے تھے۔
مولانا عبدالسلام کیلانی کو جب عبارت پڑھنے میں دقت پیش آتی تو انھیں بسا اوقات حافظ صاحب مرحوم سے ڈانٹ پڑ جاتی تھی۔ عبدالسلام کیلانی صاحب ایک دفعہ پریشان ہوگئے، میں نے ان سے کہا: ’’ آپ میرے ساتھ بیٹھا کریں میں آپ کو پڑھا دیا کروں گا۔‘‘ اس طرح ان کی عبارت پختہ ہو گئی اور اس واقعہ سے میری ان سے دوستی بھی پختہ ہو گئی۔
میرا ان سے لگاؤ اس حد تک تھا کہ جب سالانہ چھٹیاں ہوتیں تو ہم چاندی کوٹ(مولانا عبدالسلام کیلانی مرحوم