کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 35
چنانچہ حاجی عبدالعزیز کی تجویز پر کئی مدرسوں کے نام زیر غور آئے۔ آخر فیصلہ ہوا کہ حافظ عبد اللہ محدث روپڑی کے مدرسے چوک دالگراں میں داخل کروایا جائے۔ اس طرح میں اور حافظ مقبول احمد مسجد قدس چوک دالگراں میں بغرض حصولِ تعلیم داخل ہو گئے۔ مسجد قدس اس وقت اہل علم کا مرکز تھا۔ یہ مسجد چونکہ ایک طرف ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے دوسری طرف سلطان کی سرائے اور کراؤن بس کا اڈہ بھی اس کے قریب تھا۔ اس لیے باہر سے کوئی عالم دین لاہورآتے یا لاہور سے کسی نے جانا ہوتا تو مسجد قدس میں ضرور آتے تھے۔ ایک دفعہ ہم پڑھ رہے تھے کہ مولانا محمد یوسف کلکتوی مرحوم تشریف لائے۔ اس طرح مسجد قدس میں اکثر علماء کا آنا جانا رہتا تھا۔ ضیائے حدیث: آپ کے ساتھ اور کون کون سے طلبہ زیر تعلیم تھے؟ حافظ صاحب: مجھے اس وقت سب کے نام یاد نہیں۔ میری کلاس میں ۱۰ ، ۱۲ طلبہ تھے جن میں مولانا عبد السلام کیلانی، حافظ عبدالرحمن مدنی، مولانا تاج الدین، سید حبیب الرحمن شاہ بخاری، راولپنڈی والے جو عبد الغنی شاہ مرحوم خطیب کامونکی کے رشتہ دار تھے وہ بھی ہمارے ساتھی تھے۔ مسجد قدس میں ہمارے اصل استاد حافظ عبد اللہ محدث روپڑی تھے۔ وہ علم کا سمندر تھے۔ ایک دفعہ ہم پڑھ رہے تھے کہ مولانا حافظ محمد حسین روپڑی تشریف لائے۔ انھوں نے اپنے بھائی حافظ عبد اللہ محدث روپڑی سے مخاطب ہو کر کہا: یہ آپ کیا کررہے ہیں کہ ہمیشہ چھوٹی چھوٹی صرف نحو کی کتابیں ان بچوں کو پڑھاتے رہتے ہیں۔ بڑی کتابیں ان کو شروع کروائیں۔ وہ کہنے لگے میں ان کی بنیادیں مضبوط کر رہا ہوں۔ جو کتابیں میں ان کو پڑھا رہا ہوں بظاہر یہ چھوٹی کتابیں ہیں لیکن ان کو لکھنے والے بہت بڑے بڑے امام ہیں۔ اس لیے ان کی کتابوں کو چھوٹا نہ کہو۔ ایک وقت آئے گا یہ بچے بھی امام بنیں گے۔ حافظ عبد اللہ روپڑی مرحوم نے ہماری بنیادیں اس حد تک مضبوط اور پختہ کیں کہ سارا سارا دن ہمیں لے کر بیٹھے رہتے اور پڑھاتے رہتے۔ ان کی عادت تھی کہ کھانا ایک وقت کھاتے تھے۔ زیادہ تر روزے رکھتے تھے۔ ان کی رہائش ماڈل ٹاؤن میں تھی۔ اس وقت میو ہسپتال کے قریب رتن چند کی سرائے تھی، وہاں سے ماڈل ٹاؤن کی بس جایا کرتی تھی۔ بس کا کرایہ چار آنے تھا۔ حافظ صاحب نے جب گھر جاناہوتا تو کرایہ الگ رکھ لیتے تھے۔ ہم ان کو رتن چند کی سرائے تک بس پر بٹھانے کے لیے آتے تو وہ راستے میں بھی ہم سے ابواب الصرف سنتے جاتے تھے۔ جب کھانا کھاتے تب بھی پڑھاتے رہتے تھے۔ جب صبح آتے تو لیٹ بھی ہو جاتے تھے کیونکہ لوگ