کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 343
(( مَقَاطَع الْحُقُوْقِ عِنْدَ الشُّرُوْطِ وَلَک مَا اشْتَرَطَت۔))[1] یعنی حقوق کے فیصلے شرائط کے مطابق ہیں۔‘‘ دوسری روایت میں ہے : ((الْمُسْلِمُونَ عَلَی شُرُوطِہِمْ۔)) [2] ’’یعنی مسلمان اپنی شرطوں پر ہیں۔‘‘ کیا عورت طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے ؟ سوال :ایک عورت کی شادی کوپندرہ سال ہو چکے ہیں۔ صرف چار سال خاوند کے پاس رہی۔ پھر اس کو بغیر طلاق کے فارغ کردیا۔ باقی آٹھ نو سال خود کما کر کھا رہی ہے۔ اب وہ طلاق کا دعویٰ کر سکتی ہے۔ اسی طرح خرچے کا دعویٰ کر سکتی ہے یا بغیر طلاق کے آگے نکاح کر سکتی ہے یا نہیں۔(ایک سائل) جواب :الجواب بعون الوھاب۔ مذکورہ صورت میں عورت طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے اگر خاوند طلاق کے لیے تیار نہ ہو تو بذریعہ عدالت خلع بھی کراسکتی ہے اور نفقہ سُکنٰی کا بھی دعویٰ کر سکتی ہے۔ بلا طلاق یا خلق کسی صورت آگے نکاح نہیں کر سکتی۔ قرآن میں ہے: ﴿ فَتَذَرُوْہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ﴾ (النساء:۱۲۹) ’’یعنی نہ آسمان پر ہے نہ زمین پر۔ ‘‘ معلق یہ ہے کہ نہ شوہر والی ہے کہ شوہر سے احسان کی امید ہو۔ نہ آزاد ہے کہ اور شوہر کر لے۔ (حاشیہ فتح محمد جالندھری مرحوم) قبل از رخصتی طلاق خاندانی ناچاکی کی بناء پر قبل از رخصتی طلاق دینا: سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ رانا نجیب صاحب نے اپنی بیوی کو رخصتی سے قبل ہی خاندانی ناچاقی کی وجہ سے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیدیں۔ اب فریقین میں صلح ہورہی ہے۔ اس صورت میں میاں بیوی کے درمیان رجوع کی کونسی صورت ممکن ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دے کر رہنمائی فرمائیں۔
[1] ترجمۃ الباب صحیح بخاری فتح الباری، ج:۵، ص۳۲۲، صحیح البخاری،بَابُ الشُّرُوطِ فِی المَہْرِ عِنْدَ عُقْدَۃِ النِّکَاحِ [2] سنن أبی داؤد،بَابٌ فِی الصُّلْحِ،رقم:۳۵۹۴، سنن الترمذی، بَابُ مَا ذُکِرَ عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الصُّلْحِ بَیْنَ النَّاسِ،رقم:۱۳۵۲