کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 34
استاد آگئے جن کا نام قاری خدا بخش تھا۔ ان کی منزل بہت پختہ تھی۔ تلفظ بھی بہت اچھا تھا۔ پورے قرآن مجید میں کوئی مشابہہ بھی ان کو نہ لگتا تھا۔
’’مولانا عبد اللہ مرحوم(پروفیسر ثناء اللہ کے والد گرامی) کو وہ قاری صاحب بہت پسند آئے۔ مولانا عبد اللہ مرحوم نے فیصلہ کیاکہ راجپوت برادری کے ذہین اور اچھے افراد قرآن مجید حفظ کریں۔ اس فیصلے کے بعد سرہالی کلاں میں باقاعدہ مدرسہ شروع کیا گیا۔‘‘
اس سے پہلے مولانا عبد اللہ اپنے طور پر ایک دو طلبہ کو دینی کتابیں پڑھایا کرتے تھے اور ساتھ زمیندارا بھی کرتے تھے۔ جب حفظ کا مدرسہ بنا تو میں اس کے ابتدائی طلبہ میں سے تھا۔ حفظ قرآنِ مجید کے دوران بہت مراحل آئے اور مدوجزر سے گزرنا پڑا۔ وجہ یہ تھی کہ قاری خدا بخش مرحوم کہیں ٹکتے نہ تھے۔ ان کے کھانے پینے کا ذوق بھی عجیب و غریب تھا۔ کھانے میں پکی ہوئی کوئی چیزبھی ان کو مشکل سے ہی پسند آتی تھی۔ ان کی اس عادت کی وجہ سے پورا گاؤں لاچار ہو گیا۔ ایک دفعہ ایسے ہوا کہ سخت گرمی کا موسم تھا، قاری صاحب کہنے لگے کہ میں نے بکرے کا گوشت کھانا ہے۔ دیہاتوں میں اس وقت بکرے کا گوشت عام نہیں ملتا تھا۔ چنانچہ میں دوپہر ۱ بجے سخت گرمی کے موسم میں اپنے گاؤں سے چلا۔ سرہالی کلاں سے للیانی ساڑھے تین میل ہے ، وہاں سے گوشت خرید کر میں ایک گھنٹے میں واپس پہنچ گیا۔ جب گیا تو مجھے یاد نہیں کہ انھوں نے وہ بھی کھایا تھا یانہیں۔
جب قاری صاحب سرہالی تشریف لائے تو بہت سے گھروں سے باری باری انکا کھانا جاتا تھا لیکن کچھ ہی عرصہ بعد سب نے ہاتھ کھڑے کردیے۔ صرف دو گھر ایسے تھے۔ جو باقاعدگی سے ان کی خدمت کرتے رہے۔ ایک مولانا عبد اللہ کااور دوسرا ہمارا گھر تھا۔ قاری صاحب قابل بہت تھے لیکن ان میں مستقل مزاجی نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے اکثر شاگرد بھی چھوڑ گئے۔ صرف دو طالب علم ان کے پاس رہ گئے۔ ایک میں تھا اور دوسرا میرا چچا زاد مقبول احمد۔ بہر کیف قاری صاحب جہاں بھی گئے ہم نے ان کو چھوڑا نہیں۔ وہ کبھی ہمیں لاہور لے آتے،کبھی میر محمد ، کبھی کسی جگہ اور کبھی کسی جگہ۔ آخر پھر وہ سرہالی کلاں آگئے تو ہم بھی ان کے ساتھ تھے۔ قرآن مجید کی تکمیل ہم نے سرہالی کلاں میں کی۔ جب ہم نے قرآنِ مجید حفظ کر لیا تو اس وقت ہمارے گاؤں میں ایک بزرگ حاجی عبدالعزیز تھے، بہت نیک اور صالح انسان تھے، کہنے لگے: دینی کتابوں کی تعلیم کے لیے دونوں بچوں کو کسی مدرسے میں داخل کروادیا جائے۔
میری والدہ مرحومہ کو بھی دین کا بہت شوق تھا۔ والد کو بھی شوق تھا لیکن اس حد تک نہیں جتنا شوق والدہ کو تھا۔