کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 329
عبدالخالق ہزارہ، بلوچستان) (۱۷ مئی ۲۰۰۲ء)
جواب : ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں حدیث ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ جَارِیَۃً بِکْرًا أَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَتْ أَنَّ أَبَاہَا زَوَّجَہَا وَہِیَ کَارِہَۃٌ، فَخَیَّرَہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔[1]
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک نوجوان لڑکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ذکر کیاکہ میرا نکاح میرے باپ نے جبراً پڑھ دیا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اختیار دے دیا کہ اپنا نکاح فسخ کرے یا قائم رکھے۔‘‘
’’صحیح مسلم‘‘ میں ہے کہ بیوہ اپنے نفس کی ولی سے زیادہ حق دار ہے اور کنواری سے اس کا باپ اس کے نکاح میں اجازت مانگے اور اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔‘‘[2]
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ صورتِ مذکورہ میں لڑکی نکاح رد کرسکتی ہے کیونکہ یہ نکاح اس کی مرضی کے بغیر ہوا ہے اور پھر باپ نے اس پر زبردستی کی ہے جس کا اسے اختیار نہ تھا۔
امام بخاری علیہ السلام نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں دو باب ان الفاظ میں قائم کیے ہیں:
(( بَابُ لاَ یُنْکِحُ الأَبُ وَغَیْرُہُ البِکْرَ وَالثَّیِّبَ إِلَّا بِرِضَاہَا۔))
’’باپ وغیرہ باکرہ اور بیوہ کا نکاح نہ کرے مگر ان دونوں کی رضامندی سے۔‘‘
(( بَابُ إِذَا زَوَّجَ ابْنَتَہُ وَہِیَ کَارِہَۃٌ فَنِکَاحُہُ مَرْدُودٌ۔))
’’جب باپ اپنی بیٹی کا نکاح زبردستی کردے تو ایسا نکاح مردود ہے۔‘‘
باپ چونکہ لالچی اور اولاد کا بدخواہ ہے لہٰذا اس کی ولایت ناقابلِ اعتبار ہے۔ ’’طبرانی اوسط‘‘ میں حدیث ہے۔
(( لَا نِکَاحَ إِلَّا بِإِذْنِ وَلِیٍ مُرْشِدٍ، أَوْ سُلْطَانٍ۔)) [3]
’’ہدایت والے ولی یا سلطان کے بغیر نکاح نہیں۔‘‘
بنا بریں اس کی جگہ بھائی ولی بن کر اپنی بہنوں کا نکاح دین دار افرادسے کر سکتا ہے ۔ نیز راجح مسلک کے مطابق زبردستی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ حدیث میں ہے میری امت سے خطا اور نسیان اور جس کام پر انھیں مجبور کیا جائے، معاف ہے۔ [4]
[1] سنن أبی دَاوُدَ،بَابٌ فِی الْبِکْرِ یُزَوِّجُہَا أَبُوہَا وَلَا یَسْتَأْمِرُہَا،رقم: ۲۰۹۶
[2] صحیح مسلم،بَابُ اسْتِئْذَانِ الثَّیِّبِ فِی النِّکَاحِ بِالنُّطْقِ، وَالْبِکْرِ بِالسُّکُوتِ،رقم:۱۴۱۹
[3] المعجم الاوسط للطبرانی،رقم:۵۲۱
[4] سنن ابن ماجہ،بَابُ طَلَاقِ الْمُکْرَہِ وَالنَّاسِی،رقم: ۲۰۴۳