کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 32
خدمت دین کے لیے دوسروں کادست نگر نہیں بننا
(انٹرویو: ضیائے حدیث، شمارہ: ۱۱ نومبر:۲۰۱۳ء۔ از: محمد ارسلان حجازی)
ضیائے حدیث: میں سب سے پہلے آپ کا شکریہ ادا کروں گا کہ آپ نے پیرانہ سالی اور اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود ماہنامہ ضیائے حدیث کے لیے وقت دیا۔ میں آپ سے پہلا سوال یہ کرنا چاہوں گا کہ اپنے خاندانی پس منظر سے آگاہ فرمائیں، آپ کی پیدائش کب ہوئی اور والد مرحوم کیا کرتے تھے، آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
حافظ صاحب: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ پاسپورٹ کے مطابق میری پیدائش ۱۹۴۰ء کی ہے۔ والدہ کی روایت کے مطابق پیدائش کی تاریخ میں ایک دو سال زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ ہمارا اصل گاؤں کلس ہے۔ یہ لاہور سے ۲۱ میل کے فاصلے پر کھیم کرن کے قریب قصور سے ۶ ، ۷ میل مشرق میں واقع ہے۔ اب کلس بھارت میں ہے۔ بالکل سرحد کے قریب۔ ہم راجپوت برادری سے تعلق رکھنے والے زمیندار ہیں۔ ہمارے خاندان میں دین کا کوئی ذوق و شوق نہ تھا۔ ہمارے ایک بزرگ تھے ان کا نام تھا میاں محمود۔ ہمارے خاندان کے یہ پہلے فرد تھے جنھوں نے میر محمد(حافظ یحییٰ عزیز مرحوم میرمحمدی کے گاؤں) سے دین سیکھا اور عقیدے کی اصلاح پائی۔ ہمارے آبائی گاؤں کلس سے میر محمد تقریباً ۱۵ میل دور ہے۔ اس کے بعد میاں محمود دہلی چلے گئے ، وہاں بھی وہ کچھ عرصہ زیر تعلیم رہے۔ جب وہ تعلیم حاصل کرکے گاؤں واپس آئے تو یہاں انھوں نے توحید کی دعوت،عقائد کی اصلاح اور دین کی اشاعت کا کام شروع کیا۔ ہمارے گاؤں کی مسجد میں ایک پکی قبر تھی ۔ لوگ اس کی پوجا کرتے تھے۔ میاں محمود کی کوش سے عقائد کی اصلاح ہونے لگی اور لوگ صحیح عقیدہ اختیار کرنے لگے اور قبر کی پوجا چھوڑ دی۔ ہمارے گاؤں کے لوگ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کو بھی کلس میں دین کی تبلیغ اور عقائد کی اصلاح کے لیے بلایا کرتے تھے۔ ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ
’’ایک دفعہ مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ تشریف لائے۔ انھوں نے صحیح دین اور عقیدہ توحید کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’ ایک گلاس جو پانی سے لبریز ہو اگر اس میں مزید پانی ڈالو گے تو گر جائے گا اگر نکالو گے تو کم ہو جائے گا۔ اسی طرح دین میں بھی کسی قسم کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘
ہمارے گاؤں میں سارے مسلمان تھے۔ علی الاعلان قربانی بھی ہوتی تھی۔ قرب و جوار کے ہندو اور سکھ ہم سے