کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 316
’’ابن ابی شیبہ‘‘ وغیرہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ
(( طَلَاقُ السَّکْرَانِ وَالْمُسْتَکْرِہِ لَیْسَ بِجَائِزٍ۔))[1]
’’نشے والے اور مجبور کیے ہوئے کی طلاق واقع نہیں ہوتی‘‘
لہٰذا مذکورہ شکل میں عورت حسبِ سابق اپنے شوہر کی زوجیت میں ہے۔ طلاق واقع نہیں ہوئی۔
طلاق نامے پر دستخط نہ کرنے پر قتل کی دھمکی اور طلاق کا حکم:
سوال : ایک لڑکی اپنے خاوند کے ساتھ اپنے والدین سے ملنے کے لیے گئی تو واپس آنے سے انکار کردیا۔ جس پر تقریباً گیارہ ماہ گزر چکے ہیں۔اس دوران کئی بار لینے کے لیے گئے۔ لیکن ہر بار لڑکی کی والدہ نے بھیجنے سے انکار کردیا۔ کچھ عرصہ بعد لڑکی نے اس کی والدہ سے کہا کہ طلاق لے کر دو۔ لہٰذا لڑکے کو بہلایا گیا اور طلاق کے متعلق کہا گیا۔ لڑکے نے انکار کردیا اور کچھ عرصہ کے بعد پھر طلاق کے لیے ہمشیرہ نے لڑکے کے تایا کے ذریعہ مطالبہ شروع کردیا ۔ ایک موقع پر لڑکے کے تائے نے ایک کاغذ پر کچھ تحریر کرکے لڑکے سے دستخط کروانے چاہے مگر لڑکے نے انکارکیا پھر انھوں نے زبردستی دستخط کرائے لڑکا اور اس کا والد کہتا ہے کہ ہم نے طلاق نہیں دی۔ تحریری رجوع بھی لکھ کر دے دیا ہے مگر لڑکی اور اس کے لواحقین نہیں مانتے اور لڑکی کو بھیجنے سے انکاری ہیں، اس طلاق کا کیا حکم ہے؟
جواب : قرائن و احوال سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریر پر دستخط سے قبل لڑکے کے علم میں تھا کہ یہ لوگ مجھ سے طلاق لینا چاہتے ہیں۔ لفظ ’’زبردستی‘‘ کا مفہوم بھی یہی ہے کہ وہ اس معاملہ سے آگاہ تھا۔ اگر تو اسے ڈر تھا کہ میں نے دستخط نہ کیے تو مجھے فوراً قتل کردیا جائے گا۔ پھر طلاق نہیں ہوئی۔
بصورتِ دیگر طلاق واقع ہو چکی ہے۔ اس کے بعد طلاق سے رجوع کرلینے سے لڑکے کا رجوع درست ہے۔ اب وہ لڑکی باقاعدہ اس کی زوجیت میں ہے بعد میں طلاق ہذا کا شمار تین طلاقوں میں ہو گا۔ جن کا شرعی طور پر شوہر کو اختیار ہے ان کا ذکر ’’سورۃ البقرۃ‘‘ آیت ۲۲۹۔ ﴿اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ﴾ (البقرۃ:۲۲۹) میں ہے۔
طلاق کے لیے جبراً تحریر لکھوانا:
سوال : میری شادی رفیدہ جبین دختر محمد مالک سے مؤرخہ ۲۰ جون ۱۹۹۶ء کو انجام پائی۔ شادی کے بعد میری رہائش اپنے سسرال کے ہاں رہی۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیٹا دیا۔ بعد ازاں میں نے اپنی رہائش دوسری جگہ تبدیل کرلی۔ مگر کچھ وقت گزرنے کے بعد کچھ وجوہ کی بناء پر دوبارہ اپنے سسرال کے ہاں منتقل ہوگیا۔ ایک دن میرے سالے نے کمرے میں بند کرکے مجھ سے اپنی ہمشیرہ کی طلاق کا مطالبہ کیا۔ میں نے کہا ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ آخربہت
[1] صحیح البخاری، بَابُ الطَّلاَقِ فِی الإِغْلاَقِ وَالکُرْہِ، وَالسَّکْرَانِ وَالمَجْنُونِ …، مصنف ابن ابی شیبۃ:۱۷۹۷۳