کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 315
جواب : مذکورہ تینوں طلاقیں چوں کہ مختلف مجلسوں ( یعنی مختلف اوقات) میں واقع ہوئی ہیں لہٰذا رجوع کی گنجائش نہیں عورت نکاح و طلاق کے بغیر سابقہ شوہر سے ازدواجی تعلق قائم نہیں کر سکتی۔
ایک طہر میں مختلف مجالس والی تین طلاقوں کا حکم:
سوال : اگرکوئی شخص طہر (پاکیزگی کے ایام) میں اپنی بیوی کو ایک طلاق دے ، بعد میں اسی طہر میں دوسری طلاق دے۔ پھر اسی طہر میں کسی اور دن تیسری طلاق دے دے، تو کیا ایک ہی طہر میں تین طلاقیں دینے سے اس کی بیوی اس پر حرام ہو جائے گی یا ایک طہر میں ایک ہی طلاق واقع ہو گی۔ اس بارے صحیح مذہب کیا ہے ؟ (سائل) (۱۷ مئی ۲۰۰۲ء)
جواب : ’’مسند احمد‘‘ میں رکانہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف مجلسوں اور موقعوں کی وجہ سے تینوں طلاقیں واقع ہو جائیں گی۔
طلاقِ مکرہ
سوال : محترم حافظ صاحب! میں گذشتہ دنوں راولپنڈی گیا۔ واپسی پر اپنی بیوی سے کچھ تکرار ہو گئی۔ اگلے روز صبح حسبِ معمول گھر سے باہر گیا۔ اور سہ پہر جب واپس آیا تو میری بیوی نے میرے کمرے میں داخل ہونے پر دروازہ بند کر کے مقفل کر دیا۔ اور مجھ سے کہا کہ میرے بھائی رات کو آئیں گے اور تمھارے ساتھ بات کریں گے۔ رات کو میری بیوی کا بھائی ارشد لطیف اپنے دو ساتھیوں ڈاکٹر اسحاق اور فیصل کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوا اور انھوں نے آتے ہی مجھے زد وکوب کرنا شروع کر دیا۔ اور جان سے مار دینے کی دھمکیاں دیتے رہے اور مجھ سے اشٹام پر زبردستی دستخط کروا لیے اور باہر نکال دیا اور کہا کہ جاؤ اب طلاق ہو گئی ہے۔ حالانکہ میں اپنی بیوی کو طلاق دینا نہیں چاہتا کیوں کہ قبیح فعل ہے۔ صورتِ مسئولہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ (منظور افضل۔ لاہور) (۳ نومبر ۲۰۰۰ء)
جواب : صورتِ مذکورہ میں طلاقِ مکرہ کی شکل ہے۔ راجح مسلک کے مطابق طلاق مکرہ واقع نہیں ہوتی۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’میری امت سے خطا، نسیان اور جس کام پر انھیں مجبور کیا جائے معاف ہے۔‘‘
ابن ماجہ، ابن حبان، دارقطنی، حاکم، حسنہ النووی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا جبراً طلاق واقع نہیں ہوتی۔
عطاء نے’’ سورۂ نحل‘‘ کی آیت ﴿ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ ﴾ سے دلیل لی ہے۔ کہ جب حالتِ اکراہ میں شرک جیسے عظیم جرم کو معاف کر دیا گیا ہے تو طلاق کا معاملہ اس سے کہیں کم تر ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حکم کو برقرار رکھتے ہوئے فرمایا: جب حالتِ اکراہ میں اﷲ نے کلمۂ کفر اور اس کے احکام کو معاف کر دیا تو اسی طرح مکرہ سے کفر سے کمتر چیز بھی معاف ہو جائے گی۔ جب بڑی شے معاف ہو گی تو چھوٹی بطریقِ اولیٰ معاف ہے۔ [1]
[1] فتح الباری: ۹/ ۲۹۰