کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 314
آدمی دوبارہ اسی مطلقہ کو اپنی بیوی بنائے تو قرآن و حدیث کی روشنی میں جائز ہے کہ نہیں؟ بَیِّنُوْا تُوجرُوْا۔ (عطاء اﷲ ساکن موضع جمشیر پتو کی) (۲۴ اکتوبر ۱۹۹۷ء)
جواب : مختلف اوقات میں دی ہوئی تینوں طلاقیں مؤثر ہیں۔ اب رجوع کی گنجائش نہیں۔ چنانچہ ’’مسند امام احمد بن حنبل‘‘ میں حدیث ہے:
(( عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: طَلَّقَ رُکَانَۃُ بْنُ عَبْدِ یَزِیدَ أَخُو بَنِی الْمُطَّلِبِ امْرَأَتَہُ ثَلَاثًا فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ، فَحَزِنَ عَلَیْہَا حُزْنًا شَدِیدًا، قَالَ: فَسَأَلَہُ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: کَیْفَ طَلَّقْتَہَا؟ قَالَ: طَلَّقْتُہَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ: فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَإِنَّمَا تِلْکَ وَاحِدَۃٌ فَارْجِعْہَا إِنْ شِئْتَ ’ قَالَ: فَرَجَعَہَا )) [1]
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ’’اعلام الموقعین‘‘ میں اس حدیث کی صحت کے بارے میں رقمطراز ہیں:
(( وَ قَدْ صَحَّحَ الْاِمَامُ ھٰذَا الاِسْنَاد وَ حَسَّنَہٗ ))
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں:
(( اَخْرَجَہُ اَحْمَدُ وَ اَبُوْ یَعْلٰی وَ صَحَّحَہُ مِنْ طَرِیْقِ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ وَہَذَا الْحَدِیثُ نَصٌّ فِی الْمَسْأَلَۃِ لَا یَقْبَلُ التَّأْوِیلَ الَّذِی فِی غَیْرِہِ مِنَ الرِّوَایَاتِ۔اِنْتَھٰی )) [2]
حدیث ہذا سے یہ بات ماخوذ ہے کہ اختلاف مجلس طلاق میں مؤثر ہے۔
ایک ہی دن میں وقفے وقفے سے تین طلاقوں کا حکم:
سوال : ایک شخص نے اپنی بیوی کو غصے کے عالم میں کہا کہ میں تمھیں طلاق دیتا ہوں۔ پھر وہ گھر سے نکل گیا ۔ تھوڑی دیر بعدپھرآیا اور یہی بات کہہ کر چلا گیا۔ تیسری بار پھر گھر میں داخل ہوا اور کہا کہ میں تمھیں طلاق دیتا ہوں۔ یوں ایک ہی دن میں تینوں طلاقیں دے دیں۔اب وہ پشیمان ہے اور بیوی بھی اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ فتاویٰ اہل حدیث کی طرف رجوع کیا تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صرف ایک طلاق واقع ہوئی۔ لیکن بالمشافہ ہم جس عالم سے بھی ملے اس نے یہی کہا کہ تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں۔ کتاب و سنت کے مطابق کیا یہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح و طلاق کے بغیر مذکورہ شخص سے ازدواجی تعلقات قائم رکھ سکتی ہے یا نہیں؟ (سائل) (۱۶ جنوری ۲۰۰۴ء)
[1] مسند أحمد، برقم: ۲۳۸۷،السنن الکبرٰی للہیبقی، بَابُ مَنْ جَعَلَ الثَّلَاثَ وَاحِدَۃً وَمَا وَرَدَ فِی خِلَافِ ذَلِکَ، رقم: ۱۴۹۸۷
[2] فتح الباری،ج:۹،ص:۳۶۲