کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 313
مذکورہ بالا فتویٰ کے متعلق چند ضروری وضاحتیں: (از شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی۔لاہور)
جملہ سوالات کے جوابات بالاختصار اور بالترتیب ملاحظہ فرمائیں۔
مذکورہ صورت میں طلاقی رجعی واقع ہوئی ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ عدت کے اندر رجوع ہو سکتا ہے اور بصورتِ دیگر تجدیدِ نکاح بھی درست ہے۔ اس کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے جس کی نشاندہی حضرت مفتی صاحب نے فرمائی ہے۔
مذکورہ طلاق دلائل کی رُو سے طلاق رجعی شمار ہو گی جس کی وضاحت ہو چکی۔
فی الجملہ موصوف مفتی صاحب کا فتویٰ درست ہے۔ البتہ طریقۂ طلاق محل نظر ہے۔ اصل یہ ہے کہ بحالت طہر بلا جماع عورت کو ایک طلاق دے کر چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ عدت گزر جائے۔ شریعت میں طلاق کو چونکہ مبغوض ترین فعل قرار دیا گیا ہے لہٰذا اس کو بقدرِ ضرورت ہی استعمال کرنا چاہیے۔
شوہر کا رجوع اگر عدت کے اندر نہ ہو ، تو تجدید نکاح ضروری ہے۔ یہ بھی یاد رہے : اغاثۃ اللّٰه فان کے مؤلف امام ابن تیمیہ نہیں بلکہ ان کے تلمیذِ رشید امام ابن قیم رحمہ اللہ ہیں۔
مختلف مجالس کی تین طلاقوں کا حکم:
سوال :ایک شخص نے اپنی بیوی کو مختلف اوقات میں ( مختلف محافل میں تقریباً ایک ہفتے کے اندر اندر) تین طلاقیں دیں۔ اور اس عرصے کو تقریباً سات آٹھ ماہ گزر گئے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں(اسی عورت کے ساتھ) دوبارہ نکاح کی کیا صورت ہو سکتی ہے اور اس کا مسنون طریقہ کیا ہے۔( زبیر محمود شیخ لاہور) (۲۶جون ۱۹۹۸ء)
جواب : مذکورہ بالا صورت میں دوبارہ نکاح نہیں ہو سکتا ہے۔﴿حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ﴾ (البقرۃ:۲۳۰)
حدیث رُکانہ میں ہے:
((کَیْفَ طَلَّقْتَہَا؟ قَالَ: طَلَّقْتُہَا ثَلَاثًا، قَالَ: فَقَالَ: فِی مَجْلِسٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ قَالَ: فَإِنَّمَا تِلْکَ وَاحِدَۃٌ فَارْجِعْہَا )) [1]
اس سے معلوم ہوااختلاف مجلس طلاق میں موثر ہے۔
تین دنوں میں تین طلاقیں اور رجوع:
سوال : ایک آدمی نے اپنی بیوی کو مختلف اوقات میں مختلف مجالس یعنی تین دن میں تین طلاقیں دے دی ہیں۔ کیا وہ
[1] مسند أحمد، برقم:۲۳۸۷، السنن الکبرٰی للہیبقی،بَابُ مَنْ جَعَلَ الثَّلَاثَ وَاحِدَۃً وَمَا وَرَدَ فِی خِلَافِ ذَلِکَ، رقم: ۱۴۹۸۷