کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 308
بائن کے استعمال کئے ہیں۔
۱۔ مسماۃ مذکورہ کو طلاق دے کر حلقہ زوجیت سے الگ کردیا ہے۔
۲۔ آج سے مسماۃ مذکورہ آزادہے۔
۳۔ آج سے من مقر کا مسماۃ مذکورہ سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔
ان تینوں الفاظ سے طلاقِ بائنہ واقع ہوتی ہے۔ فقہی قاعدہ ’’اَلْبَائِنُ لَا یلحق البَائِن‘‘ کے تحت ان الفاظ سے ایک طلاق بائنہ واقع ہو گئی۔ اس کے بعد طلاق اوّل پہلے طہر کے الفاظ سے ’’الصَّرِیْحُ یلحق البائن بشرط العدۃ‘‘ کے قاعدہ کے تحت دوسری طلاق بائنہ واقع ہو گئی۔ نکاح اوّل ختم ہوگیا۔ رجوع کی گنجائش نہیں رہی۔ البتہ عدت کے اندر بلاحلالہ نکاحِ جدید مہر جدید سے ہو سکتا تھا۔ جو عدت کے اندر نہ ہو سکا۔ یہاں تک کہ عورت پر طلاق دوئم دوسرے طہر والی واقع ہوگئی۔ جس کی بناء پر عورت پر تین طلاقیں واقع ہوگئیں۔ اور اس پر طلاق مغلظہ واقع ہو گئی۔ نکاحِ ثانی اور رجوع کی گنجائش نہ رہی۔ لہٰذا اب مسماۃ مذکورہ یحییٰ خان پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو چکی ہے۔ نکاحِ اوّل ختم ہو چکا ہے۔ بلا تحلیل شرعی کے نکاح ثانی اور رجوع کی گنجائش نہیں ہے۔ بریلوی عالم کا فتویٰ غیر معتبر ہے۔ صحیح نہیں ہے کیونکہ انھوں نے طلاق کنائی کے الفاظ کو صرفِ نظر کردیا ہے اور ان کا حکم بیان نہیں کیا۔ حالانکہ یہ الفاظ طلاقِ کنائی کے ہیں۔ جیسا کہ بہارِ شریعت حصہ ہشتم ،ص:۱۸ پر مذکورہ ہے اور ان سے طلاقِ بائنہ واقع ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے نکاح فی الفور ختم ہو جاتا ہے۔ اس لیے بریلوی عالم کے فتویٰ پر عمل نہ کیا جائے۔ خود بریلوی علماء نے فرمایا ہے:’’آزاد ہے‘‘ اور ’’جداکردیا‘‘ کے لفظ سے طلاق بائنہ واقع ہوتی ہے۔ اسی طرح ’’کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے‘‘ کے لفظ سے طلاقِ بائنہ واقع ہوتی ہے۔ جب ان الفاظ سے طلاقِ بائنہ واقع ہوتی ہے تو مرد کے لیے مذکورہ مطلقہ بائنہ سے رجوع کی گنجائش ہی نہ رہی۔ اور یحییٰ خاں کا رجوع کرنا درست ثابت نہ ہوا… (وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ باِلصَّوَابِ۔)
کتبہ عبدالغنی بقلم خود۔ (دارالعلوم جامعہ محمدیہ گوجرہ روڈ جھنگ صدر)
جواب : الاعتصام۔ دیوبندی اور بریلوی فتویٰ پر تعاقب:
مذکورہ صورت میں طلاقِ رجعی واقع ہوئی ہے۔اس کا مفہوم یہ ہے کہ شوہر عدت کے دوران رجوع کر سکتا ہے اور عدت گزرنے کی صورت میں دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے۔ مرقومہ صورت سے ظاہر ہے کہ دورانِ عدت خاوند نے رجوع کر لیا ہے۔ لہٰذا باقاعدہ اب وہ عورت اپنے شوہر کی زوجیت میں ہے۔
اور جہاں تک اس تحریر کے ساتھ دو فتوؤں کا تعلق ہے۔ دونوں غیر درست ہیں۔ دیوبندی فتویٰ میں اس طلاق کو طلاقِ بائن قرار دیا ہے۔ حالانکہ یہاں ایسی کوئی صورت نہیں کہ اس کو طلاق بائن قرار دیا جائے۔ طلاقِ بائن کی تفصیلی