کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 306
اس کتاب کا مطالعہ میرے لیے مشکل ہے اور کتاب میری دسترس میں نہیں۔ اس لیے آپ سے گزارش ہے کہ اس کتاب کا عربی متن بمع اُردو ترجمہ فراہم فرما کر مشکور فرمادیں۔ اگر طویل ہو تو اُردو ترجمہ اور حوالہ سے بھی کام چل جائے گا۔(عبید الرحمن) (۲۷ دسمبر۱۹۹۶ء)
جواب :کتاب ’’اغاثۃ اللّٰه فان‘‘ سے مشارٌ الیہ عبارت اور اس کا اُردو ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:
(( مَا نَدِمْتُ عَلٰی شَیْئٍ نِدَامَتِیْ عَلٰی ثَلَاثٍ : أَنْ لَا أَکُوْنُ حرمتُ الطَّلاقَ، وَ عَلٰی أَنْ لَا أَکُوْنُ أَنْکَحْتُ الْمَوَالِیَ ، وَ عَلٰی أَن لَا أَکُوْنُ قَتَلْتُ الْنَّوَائِح.)) اخرجہ ابوبکر الاسماعیلی فی مسندعمر۔
’’مجھے کسی امر پر اتنی پشیمانی اور ندامت نہیں ہوئی جتنی تین چیزوں پر ہوئی ہے۔(اکٹھی تین) طلاق کو محرم قرار نہ دیتا اور آزادہ کردہ غلاموں کا نکاح نہ کرتا۔ اور اس بات پر بھی پشیمانی ہوئی ہے کہ نوحہ بین کرنے والی عورتوں کو قتل نہ کرتا۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کن تین اقدام پر افسوس ہوا؟
سوال : سننے میں آیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آخری ایام میں اپنے تین اقدامات پر اظہارِ ندامت فرمایا تھا۔ اگر ایسا ہے تو ان تینوں امور کی وضاحت فرمادیں کہ کیا تھے؟ کیا یہ روایت سنداً قابل ِ التفات ہے یا نہیں؟
(عبید الرحمن) (۲۷ دسمبر۱۹۹۶ء)
جواب :اثر ہذا سنداً کمزور ہے لیکن اس حکم کا تادیبی اور وقتی ہونا’’صحیح مسلم‘‘میں لفظ فَلَوْ اَمْضَیْنَاہُ سے عیاں ہے تین امروں کی وضاحت پہلے ہو چکی۔
ایک مسئلہ طلاق پر دیوبندی اور بریلوی فتوؤں پر تعاقب:
سوال : محترم مفتی صاحب!
میرے ایک دوست ’’یحییٰ خان ولد ذوالفقارعلی‘‘ نے اپنی بیوی’’رفعت پروین دختر گلزار احمد‘‘ کو کسی اختلاف کی بناء پر تحریری طلاق مؤرخہ ۳۰/۱/۹۹ء کو دی جس میں یہ الفاظ درج تھے:
’’مسماۃ مذکورہ کو طلاق دے کر اپنے حلقۂ زوجیت سے الگ کردیا ہے۔ آج سے مسماۃ مذکورہ آزاد ہے۔ بعد ازعدتِ میعاد عقدِ ثانی کر لیوے کوئی عذر نہ ہوگا۔ آج سے من مقر کا مسماۃ مذکورہ سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں رہا اور نہ ہی آئندہ ہوگا۔ حق مہر ادا شدہ ہے۔ کوئی دَین(قرض) وغیرہ بقایا نہ ہے۔ طلاقِ اوّل پہلے طہر، طلاقِ دوم دوسرے طہر اور طلاقِ سوم تیسرے طہر میں شمار ہو گی۔‘‘
اُس نے یہ دستاویز اپنی بیوی کو اور یونین کمیٹی میں بھجوا دی۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد یہ معلوم ہونے پر کہ اس