کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 281
کیا: میں نے اس کو تین طلاقیں دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک ہی مجلس میں؟ اس نے کہا: ہاں( ایک مجلس میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ یہ ایک ہی ہے، اگر تو چاہے تو اس سے رجوع کرلے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہا سنے اپنی بیوی سے رجوع کرلیا۔‘‘ امام ابن القیم رحمہ اللہ ’’اعلام الموقعین‘‘ میں فرماتے ہیں: وَ قَدْ صَحَّحَ الْاِمَامُ ھٰذَا الاِسْنَاد وَ حَسَّنَہٗ ’’امام احمد رحمہ اللہ نے اسے صحیح قراردیا اور حسن کہا۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’فتح الباری‘‘ میں یہ حدیث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: وَہَذَا الْحَدِیثُ نَصٌّ فِی الْمَسْأَلَۃِ لَا یَقْبَلُ التَّأْوِیلَ الَّذِی فِی غَیْرِہِ مِنَ الرِّوَایَاتِ[1] ’’یہ حدیث اس مسئلے میں نص( واضح دلیل) ہے۔ جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا بعض دیگر روایات میں موجود تاویل کو قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘ [2] اس کے علاوہ ’’صحیح مسلم‘‘ ، ’’ سنن ابی داؤد‘‘ اور ’’سنن النسائی‘‘ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: کَانَ الطَّلَاقُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَسَنَتَیْنِ مِنْ خِلَافَۃِ عُمَرَ، طَلَاقُ الثَّلَاثِ وَاحِدَۃً[3] ’’ایک مجلس کی تین طلاقیں عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خلافتِ صدیقی میں اسی طرح خلافت ِ فاروقی کے ابتدائی دو سال میں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔‘‘ حالتِ حمل میں دی ہوئی طلاق، طلاقِ سنی ہوتی ہے۔ چنانچہ’’فتح الباری‘‘ (۹/۳۵۰) میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
[1] فتح الباری،ج:۹،ص:۳۶۲ [2] گزشتہ دنوں میں نے ’’فتح الباری‘‘ کی عبارت ’ وَہَذَا الْحَدِیثُ نَصٌّ فِی الْمَسْأَلَۃِ لَا یَقْبَلُ التَّأْوِیلَ الَّذِی فِی غَیْرِہِ مِنَ الرِّوَایَاتِ‘ کا ترجمہ یوں کیا تھا:’’یہ حدیث اس مسئلہ میں نص( واضح دلیل ) ہے جس میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا دیگر روایات میں موجود تاویل کو قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘ اس ترجمے میں سقم ہے، صحیح ترجمہ یوں ہوگا: ’’یہ حدیث اس مسئلے میں ایسی نص(واضح دلیل ) ہے جس میں کسی ایسی تاویل کی گنجائش نہیں جس کا دیگر روایات میں احتمال ہے۔‘‘ میں فاضل مکرم حافظ عبدالمنان صاحب نورپوری(رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃً) کا انتہائی ممنون ہوں جنھوں نے اس پر توجہ دلائی، امید ہے محترم حافظ صاحب آئندہ بھی مفید مشوروں سے نوازتے رہیں گے۔ فجزاء اللہ احسن الجزاء۔ (حافظ ثناء اللہ مدنی) [3] صحیح مسلم،بَابُ طَلَاقِ الثَّلَاثِ،رقم:۱۴۷۲