کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 235
سامان کیا، حق مہر بھی دینے سے انکار کرتا ہے تو کیا سارا سامان لوٹانا ضروری ہے اور اگر حق مہر نہیں لوٹاتا تو اکبر قیامت کے دن زنا کار ثابت ہو سکتا ہے یا نہیں؟(محمد رضا ء اللہ عبداللہ نیپالی) (یکم جولائی ۱۹۹۴ء)
جواب :موجودہ صورت میں طلاق مؤثر ہے۔ وضع حمل کے ساتھ عورت عدت سے فارغ سمجھی جائے گی اور حق مہر عورت کا حق ہے۔ جو ہر صورت خاوند کو ادا کرنا ہو گا۔ اور باقی سامان جو خاوند نے دیا ہے اس کافیصلہ عرف کے مطابق ہو گا۔ المعروف کالمشروط۔ اور عورت کا جہیز اسی کا حق ہے اس میں خاوند کو کوئی دخل نہیں اور اس حمل سے جو بچہ ہوگا اس کا انتساب خاوند کی طرف ہوگا۔حدیث میں ہے:
’ الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاہِرِ الحَجَرُ ۔‘[1]
خاوندکو نفقہ ادا کرنا ہوگا۔ ہاں البتہ اگر خاوند حالت ِ زوجیت میں اس عورت سے لعان کر لیتا جس کی وضاحت’’ سورۂ نور‘‘ کے شروع میں ہے تو پھر مذکور بچے کا انتساب خاوند کی بجائے صرف عورت کی طرف ہونا تھا۔ حق مہر کے عدمِ ادا کی صورت میں روزِ جزاء خاوند ذمہ دار ہو گا کیونکہ حق مہر بذمہ خاوند قرض ہے۔ بایں صورت ازدواجی تعلقات کو زنا قرار دینا مشکل امر ہے۔
حق مہر سے متعلقہ چند مسائل:
سوال :۱۔ حق مہر کب فرض ہوا؟ اور سب سے پہلے کس نے ادا کیا؟
۲۔ حق مہر لڑکی کے لیے لڑکے پر کیوں فرض کیا گیا؟ اس کی کیا ضرورت تھی؟
۳۔ حق مہر کتنا مقرر کیا جانا چاہیے۔ مہربانی فرما کر جواب جلدی اور تفصیلی دینا۔ (شکیل احمد بٹ کشمیری) (۳۰ دسمبر۱۹۹۴ء)
جواب :بظاہر جب سے ازدواجی تعلقات کا سلسلہ شروع ہے اس وقت سے حق مہر کی فرضیت ہے اس لیے کہ یہ شے مہر کی تعریف میں پنہاں ہے۔ نیز جس نے سب سے پہلے نکاح کیا ظاہر ہے کہ پہلا صداق اس نے ادا کیا ہو گا۔ مہر یا صداق کی تعریف اہل علم نے یوں کی ہے:
(( ہُوَ مَا تعطَاہ الْمَرأَۃ لِحِلِّـیَّۃ الْاِسْتِمْتَاعِ بِہَا ۔))
یعنی ’’ مہر وہ شے ہے جو عورت کو استمتاع کے حلال ہونے کے عوض پیش کی جاتی ہے گویا کہ یہ بھی لین دین کی صورتوں میں سے ایک صورت ہے۔ جس طرح بیع و شراء میں شئے کا تبادلہ شئے سے ہوتا ہے۔ اس طرح حق مہر کا تقرر ہے تاکہ جانبین کے احساسات بیدار رہیں۔ حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ ہو۔ نیز بوقت ضرورت عورت بعوض علیحدگی میں بھی اس کو استعمال کر سکتی ہے جو خلع سے موسوم ہے۔ مزید آنکہ عورت کا اس میں مالی فائدہ بھی ہے۔
[1] صحیح البخاری،بَابٌ: لِلْعَاہِرِ الحَجَرُ،رقم:۶۸۱۷