کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 232
سے نکاح کے جواز کو اجماعی قرار دیا ہے نہ کہ خیار بلوغ کی نفی کو۔ مفتی صاحب نے امام نووی کی اگلی عبارت حذف کر کے دیانت کا خون کیا ہے ’’فی فسخہ‘‘ کے بعد کی عبارت یوں ہے: (( عِنْدَ مَالِکٍ وَالشَّافِعِیِّ وَ سَائِرِ فُقَہَائِ الْحِجَازِ ۔ )) (شرح نووی)
شبہ نمبر ۳:
یہ دعویٰ کہ حدیث خنساء بنت خدام سے ہر لڑکی کے نکاح میں رضا مندی کا استنباط کسی محدث نے نہیں کیا قطعا، درست نہیں۔ امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے خنساء جو شوہر دیدہ تھیں کی حدیث روایت کر کے ہر لڑکی کی رضامندی کو لازمی قرار دینے کا عنوان قائم کیا ہے۔ یعنی امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حدیث سے مقصود عورت کی مخصوص حالت نہیں بلکہ ہر عورت کی رضا مندی ضروری ہے۔ خواہ نکاح کے وقت حاصل ہو یا نکاح کے بعد یا نا بالغ ہونے پر جب کسی عورت کا اظہار رضا مندی معتبر ہو، اسے خیارِ بلوغ کہتے ہیں۔
شبہ نمبر ۴:
فتویٰ نمبر۲ میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مذکورہ مسئلہ کو دو مسلکوں کا اختلاف بنایا جائے، حالانکہ اصل بات دلیل ہے جو قرآن و حدیث ہیں۔ علماء کسی بھی مسلک سے متعلق ہوں یا متفقہ محترم شخصیتیں، ان کے اقوال کو ترجیح کتاب و سنت کی موافقت کی بناء پر ہی دی جا سکتی ہے۔ اگرچہ ابن قیم رحمہ اللہ اور نواب صدیق حسن خان وغیرہ کی تحقیق سے بھی یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ خیارِ بلوغ کے قائل نہیں تھے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے۔ اسی طرح کا معاملہ ’’مولانا وحید الزمان‘‘ اور ’’فتاویٰ ثنائیہ‘‘ کا ہے۔ مولانا وحید الزمان رحمہ اللہ نے محدثین کے حوالہ سے خیار بلوغ کا ذکر کر کے امام ابو حنیفہ کے نزدیک نا بالغ لڑکی کے جبری نکاح کی بات لکھی ہے جو اس حوالہ سے بھی غلط ہے کہ یہ رائے امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کی قطعاً نہیں جیسا کہ مشہور شروح حدیث اور کتب فقہ میں ان کے نزدیک بھی لڑکی کی رضا مندی ضروری قرار دینے کی بات ذکر کی گئی ہے۔ البتہ باپ دادا کا نا بالغ لڑکی پر جبر امام ابو یوسف رحمہ اللہ کی طرف نسبت کیا جاتا ہے جب کہ ان کا دوسرا قول خیار بلوغ کا بھی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ کتاب و سنت کی رو سے ہر نکاح کے لیے ولی کی زیر سرپرستی ہر بالغ یا نا بالغ کی رضامندی شرط ہے، خواہ نکاح کے وقت ہو یا بعد میں، باپ دادا وغیرہ کی شفقت کی اہمیت ہی کی وجہ سے انھیں عقد نکاح میں بطور ولی لازمی حیثیت دی گئی ہے لیکن ہے لیکن ان کے ولی ہونے کا قطعاًمعنی یہ نہیں کہ منکوحہ لڑکی کی رضا مندی کی شرط ہی ختم کر دی جائے، اگر وہ نکاح کے سر پرست ہیں تو نکاح کی صورت میں زندگی تو عورت نے بسر کرنی ہے۔ اس کی رضامندی اس کا بنیادی شرعی اور اخلاقی حق ہے جو ختم نہیں کیا جا سکتا۔