کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 231
کے بارے میں پوچھی جائیں گی آپ نے فرمایا: ہاں، میں نے عرض کی: جب کنواری سے پوچھا جائے گا تو وہ شرم کی بناء پر خاموش ہو جائے گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عقد نکاح میں اگرچہ لڑکی خود فریق نکاح نہیں ہوتی کیونکہ اس کا ولی اور شوہر ایجاب و قبول کرتے ہیں تا ہم عورت کی رضا مندی شرط ہے۔ خواہ وہ بعد میں حاصل ہو۔ اسی بناء پر بالغ ہونے پر اختیار ملتا ہے کہ وہ نکاح کو باقی رکھے یا ختم کر دے۔ ان حنفی حضرات پر یہ بات بالخصوص زیادہ لاگو ہوتی ہے جو عورت کو عقد نکاح میں بطورِ فریق شامل کرتے ہیں اور ولی کے علاوہ دوسرے ذمہ دار ہیں۔ گویا ان کے نزدیک عورت کی رضا مندی نکاح کی صرف شرط نہیں بلکہ نکاح کا رکن ہے۔ کسی چیز کے رکن کے فوت ہو جانے سے بالاتفاق وہ شے باطل ہو جاتی ہے۔
لڑکی کی رضا مندی کا نکاح میں مسئلہ خواہ وہ بالغ ہو یا نا بالغ، شوہر دیدہ ہو یا کنواری امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی احادیث سے یہی عموم سمجھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ’کتاب النکاح، بَابُ إِذَا زَوَّجَ ابْنَتَہُ وَہِیَ کَارِہَۃٌ فَنِکَاحُہُ مَرْدُودٌ ‘ کے تحت (حدیث نمبر ۵۱۳۷ فتویٰ میں مذکور حدیث خنساء بنت خدام) ذکر کر کے عنوان میں استنباط یہی کیا ہے کہ جب کوئی باپ اپنی بیٹی کا نکاح اس کی ناراضگی کی صورت میں کرے تو نکاح مسترد کر دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ نکاح میں رضا مندی شرط تو ہے لیکن اس رضا مندی کا پہلے ہونا ضروری نہیں بلکہ بعد کی رضا مندی بھی کافی ہے۔ کیونکہ تمام شروط کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ پہلے سے موجود ہوں۔ بہت سی شروط ایسی ہیں جو بعد میں حاصل ہو جانے کی صورت میں بھی کفایت کرتی ہیں۔ جس طرح خلیفہ کی بیعت خلافت کے لیے شرط تو ہے لیکن خلاف کے انعقاد کے بعد بھی معتبر ہوتی ہے۔
مسئلہ کے متعلق وضاحت تو ہو چکی اب میں دونوں فتووں کے بارے میں چند شبہات کا ازالہ مناسب سمجھتا ہوں۔
شبہ نمبر ۱:
پہلا فتویٰ جو سمن آباد جھنگ صدر سے جاری ہوا ہے اس کے آخر میں مندرجہ ذیل الفاظ ہیں’’فتویٰ اہل حدیث‘‘ کے نقطہ نظر سے ہے۔ اگر کیس عدالت میں ہے تو فتویٰ مؤثر نہ ہو گا‘‘ یہ فرقہ وارانہ انداز درست نہیں ہے اور نہ ہی کسی مسلک کو اپنے متعلق اس طرح بے اعتمادی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ پاکستان سب کا ہے۔ اس کے دستور میں شریعت کی بناء پر ہی بات کا وزن ہے۔ فرقہ وارانہ تقسیم سے دلائل کو بے وزن نہیں بنانا چاہیے۔
شبہ نمبر ۲:
فتویٰ نمبر ۲ میں بھی یہی فرقہ وارانہ انداز کی جھلک ہے۔ بلکہ تحکمانہ انداز میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ بعض احناف کی رائے کو مسلمانوں کا اجماع قرار دیا جائے۔ چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ ’’شارح مسلم‘‘ کے حوالہ سے جس اجماع کا ذکر کیاگیا ہے اس میں دیانت علمی کو بھی ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ کیونکہ امام نووی رحمہ اللہ نے نا بالغ لڑکی کے باپ دادا کی طرف