کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 230
ملاحظہ فرما لیں، جو نزاع کے بارے میں کافی رہنمائی دے سکتی ہے وہ یوں ہے:
عَنْ عَائِشَۃَ : أَنَّ فَتَاۃً دَخَلَتْ عَلَیْہَا فَقَالَتْ : إِنَّ أَبِی زَوَّجَنِی ابْنَ أَخِیہِ لِیَرْفَعَ بِی خَسِیسَتَہُ وَأَنَا کَارِہَۃٌ، قَالَتْ: اجْلِسِی حَتَّی یَأْتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم فَأَخْبَرَتْہُ، فَأَرْسَلَ إِلَی أَبِیہَا فَدَعَاہُ، فَجَعَلَ الْأَمْرَ إِلَیْہَا، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللّٰهِ ، قَدْ أَجَزْتُ مَا صَنَعَ أَبِی، وَلَکِنْ أَرَدْتُ أَنْ أُعْلِمُ أَلِلنِّسَائِ مِنَ الْأَمْرِ شَیْئٌ۔ [1]
’’حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ایک لڑکی ان کے پاس آئی جس نے بیان کیا کہ اس کے باپ نے اس لڑکی کو اپنے بھتیجے سے بیاہ دیا ہے تا کہ اس کی خستہ حالت کو دور کرے حالانکہ میں ناراض ہوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں بٹھا لیا۔ پھر آپ کے آنے پر سارا ماجرا کہہ سنایا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کے باپ کو بلا بھیجا اور باپ کو بلا کر اختیار لڑکی کو سونپ دیا، لڑکی کہنے لگی: (اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ میرے باپ نے کیا میں اسے قبول کرتی ہوں لیکن میرا ارادہ صرف یہ تھا کہ میں عورتوں کو بتا دوں کہ میرا باپ دادا کا ان پر کوئی جبر نہیں۔‘‘
اس حدیث پر صاحب ’’سبل السلام ‘‘(ج: ۲، ص: ۹۹۶) نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’حدیث مذکورہ میں لفظ نساء شوہر دیدہ اور کنواری دونوں کو شامل ہے اس نے یہ بات رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کہی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا۔ مراد لڑکی کی ناراضگی کی صورت میں باپ دادا کے اختیار کی تردید ہے۔‘‘
حدیث میں لفظ ’’نساء‘‘ جس طرح بالغ عورت کو شامل ہے اسی طرح نا بالغ عورت بھی ’’نساء‘‘ میں داخل ہو گئی۔ لہٰذا نا بالغ لڑکی کی رضا مندی بھی شرط ہے، اگرچہ یہ شرط نکاح کے وقت پائی جائے یا نکاح کے بعد حاصل ہو، جیسا کہ’’صحیح بخاری‘‘کی حدیث نمبر ۶۹۴۶ کتاب الاکراہ ، بَابٌ لاَ یَجُوزُ نِکَاحُ المُکْرَہِ ‘میں وارد ہوا ہے۔ الفاظ یوں ہیں:
’عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللّٰه عنہا ، قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰهِ ، یُسْتَأْمَرُ النِّسَاء ُ فِی أَبْضَاعِہِنَّ؟ قَالَ: نَعَمْ قُلْتُ: فَإِنَّ البِکْرَ تُسْتَأْمَرُ فَتَسْتَحْیِی فَتَسْکُتُ؟ قَالَ: سُکَاتُہَا إِذْنُہَا۔‘ [2]
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا عورتیں اپنی عصمت (نکاح)
[1] سنن النسائی، بَابُ : الْبِکْرُ یُزَوِّجُہَا أَبُوہَا وَہِیَ کَارِہَۃٌ ، رقم:۳۲۶۹ (ج:۲، ص: ۶۹) ، و ابن ماجہ عن بریدہ: ۱۸۷۴
[2] صحیح البخاری،کتاب الاکراہ، بَابُ لاَ یَجُوزُ نِکَاحُ المُکْرَہِ،رقم:۶۹۴۶