کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 229
قل الحق ولو کان مرّا کے تحت جو ان کے گھر کے آدمی اور غیر مقلّدین کے قابلِ قدر عالم ہیں۔ جناب شرف الدین دہلوی رحمہ اللہ نے بتقاضائے بشریت اپنے غیر مقلّدین علماء کے غلط استدلال بالحدیث کی کھلے طور پر تردید کی ہے۔ بقول شخصے کہ۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
فَقَط وَاللّٰہ تَعَالٰی اَسْأَلُ الْوَقَایَۃ عَنِ الْغَوَایَۃ وَ اَن لَا یَجْعَلَنِی مِنَ ﴿ الَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیَہُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ ہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ﴾ وَاللّٰہُ وَلِیُّ التَّوْفِیْق وَ ہُوَ بِہ حَقِیْقٌ وَ نِعْمَ الرَّفِیْق فِی کُلِّ طَرِیْق کَتَبَہُ الْعَبْدُ الضَّعِیْف مُحمد اعظم الھاشمی الَّذِیْ فِی رَحْمَۃِ اللّٰہِ غَرِیْق
۶ ربیع الاول ۱۴۱۸ھ مدرسۃ العلوم الشرعیہ اسٹیشن چوک جھنگ صدر۔
اصاب من اجاب احقر محمد ولی اﷲ غفرلہ
الجواب صواب بلا امتیاز: احقر سید عبد القدوس (جامعہ حقانیہ ساہیوال ) سرگودھا۸/ ۲/ ۱۸ ھ
نِعْمَ التَّحْقِیْق وَ بِالْقُبُوْل حَقِیْقٌ وَ لَفْظ الْحَدِیْثِ وَ ہِیَ کَارِہِۃٌ اَیْضًا دَلِیْلٌ عَلٰی اَنْ الْجَارِیَۃ کَانَتْ بَالِغَۃً وَقت النِّکَاحِ لِاَنَّ الْکَرَاہَۃ لَمْ یُعْتَبر مِنْ غَیْرِ بُلُوْغٍِ وَاعْتَبَرَ النَّبِیُّ صلي اللّٰه عليه وسلم کَرَاہَتَہَا فَافْہَمْ حَقّ الْفَھْمِ وَلَا تَکُنْ مِنَ الْقَاصِرِیْنَ فَقَطْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ
سید عبد الشکور ترمذی عفی عنہ (۸ ربیع الاول ۱۸ھ) جامعہ حقانیہ ساہیوال من مضافات سرجودھا۔
محاکمہ : (از شیخ الحدیث حافظ ثناء اﷲ مدنی)
صورتِ مسئولہ میں دونوں فتوے آپ نے ملاحظہ فرمائے۔ اختلاف کے حل کے لیے اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِنْ شَیْئٍ فَحُکْمُہٗٓ اِِلَی اللّٰہِ ﴾ (الشوریٰ: ۱۰)
’’اور جس بات میں تم اختلاف کرو تو اس کا آخری فیصلہ اﷲ تعالیٰ کے حوالے ہے۔‘‘ (ترجمہ وحید الزمان)
اسی طرح ارشاد ہے:
﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ﴾ (النساء: ۵۹)
’’پس اگر کسی چیز میں نزاع ہو تو اس بارے میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرو۔‘‘
مذکورہ بالا فتوؤں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو حدیثیں آپ نے ملاحظہ فرمائیں جن میں سے ایک خنساء بنت خدام کے بارے میں ہے۔ جو شوہر دیدہ تھی اور دوسری جاریہ کے بارے میں ہے جو کنواری تھی ایک تیسری حدیث بھی