کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 228
حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَ ابْن عُمَرَ ۔‘ (ج: ۱، ص: ۵۱۷)
مذکورہ عبارت کا مختصر مطلب یہ ہے کہ باکرہ بالغہ کا عقد بغیر اس کی اجازت صحیح نہیں ہوتا۔ اسی طرح حضرت خنساء اور جاریہ کو جو خیارِ فسخ ملا تھا۔ وہ چونکہ عاقلہ بالغہ تھیں۔ ان کی رضا صحتِ عقد کے لیے ضروری تھی تو اس نکاح کا انعقاد ان کی پسندیدگی پر ہوا، اس لیے آپ علیہ السلام نے خیار دیا۔
۳۔ مزید علیہ سنن ابی داؤد کے مترجم علامہ وحید الزمان کی تحقیق بھی ملاحظہ ہو۔
اسی جاریہ کی حدیث کا ترجمہ کرنے کے بعد ’’فائدہ‘‘ لکھ کر فرماتے ہیں۔ ’’محدثین نے لکھا ہے کہ وہ لڑکی بالغہ ہو گی کیونکہ کم سن پر باپ کو اختیار ہے کہ جبراً نکاح کر دیوے پھر جب وہ لڑکی جوان ہو گی۔… (تو) ابوحنیفہ کے نزدیک اختیار نہ ہو گا۔ (ج: ۲، ص: ۱۴۰) مترجم ابو داؤد )
بہر کیف جاریہ والی روایت بھی علامہ نواب صدیق اور علامہ وحید الزمان کی عبارات کے ذریعے واضح ہو گئی کہ یہ دلیل بھی بے محل ہے اور بے جا ہے۔ اس پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ:
اور ہوں گے جو سہیں ان کی جفائیں بے محل
ہم کسی کا غمزۂ بے جا اٹھا سکتے نہیں
حرفِ آخر: غیر مقلّدین کے پیشوا، امام الھدیٰ، محقّقِ دوراں مولانا ثناء اﷲ امر تسری کے فتاویٰ ثنائیہ کا حوالہ۔
س: زید نے اپنی لڑکی ہندہ کی عدمِ بلوغت کے وقت بکر سے شادی کر دی۔ بعد بلوغت کے ہندہ راضی نہیں۔ (۱۷ اکتوبر ۱۹۹۷ء)
ج: ہندہ کو بعد بلوغت نکاح فسخ کرانے کا اختیار ہے۔ اس مذکورہ جواب پر فتاویٰ ثنائیہ کے محشّی غیرمقلّدین کے امام بیہقی وقت علامہ ابو سعید شرف الدین دہلوی اپنے نام کا مخصوص اشارہ لفظ ’’شرفیہ‘‘ لکھ کر یوں رقمطراز ہیں۔
یہ مسئلہ بھی ہمارے اصحاب میں رائج ہو گیا ہے۔ مگر جس حدیث سے استدلال کرتے ہیں، اس سے ثابت نہیں ہوتا وہ حدیث خنسا بنتِ خدام کی ہے اس لیے کہ اس کا عدمِ بلوغت بوقت عقد نکاح ثابت نہیں بلکہ اس سے بوقتِ نکاح انکار و کراہیہ سے بلوغ ثابت ہے۔ پھر جملہ حالیہ ’وَ ہِیَ کَارِہَۃٌ ‘سے ثابت ہے وہ منعقد نہ ہوا تھا۔ لہٰذا یہ استدلال فسخ باطل ہے۔ (ص: ۱۹۸، ج: ۲) باب ہشتم کتاب النکاح۔ فتاویٰ ثنائیہ۔ مطبوعہ ادارہ ترجمان السنّہ لاہور۔ مصنفہ ابو الو فاء ثناء اﷲ امر تسری)
نیز ا سی طرح کا مسئلہ نا بالغہ کا بعد البلوغ عدمِ خیار فسخ کا فتاویٰ نذیریہ(ج: ۲، ص: ۴۰۶) پر بھی موجود ہے۔
فیصلہ اربابِ علم و دانش پر: چھوڑتا ہوں کہ غیر مقلّدین عالم کی کوئی ایک دلیل بھی دعویٰ کے مطابق ہے یا نہیں؟ نہ ان کوتاہ فہم اور کج فہم پر جنھیں دلائل کے صحیح اور مقیم ہونے کا بھی علم نہیں۔ اگرچہ شیخ الکل کے فتاویٰ کے محشی،