کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 226
’’فتح الباری شرح صحیح بخاری‘‘ میں لکھتے ہیں:
أَنَّ رَجُلًا مِنِ الْأَنْصَارِ تَزَوَّجَ خَنْسَائَ بِنْتَ خِدَامٍ فَقُتِلَ عَنْہَا یَوْمَ أُحُدٍ فَأَنْکَحَہَا أَبُوہَا رَجُلًا فَأَتَتِ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ إِنَّ أَبِی أَنْکَحَنِی وَإِنَّ عَمَّ وَلَدِی أَحَبُّ إِلَیَّ فَہَذَا یَدُلُّ عَلَی أَنَّہَا کَانَتْ وَلَدَتْ مِنْ زَوْجِہَا الْأَوَّلِ وَاسْتَفَدْنَا مِنْ ہَذِہِ الرِّوَایَۃِ نِسْبَۃَ زَوْجِہَا الْأَوَّلِ وَاسْمُہُ أُنَیْسُ بْنُ قَتَادَۃَ ۔‘ (ج:۹، ص: ۱۵۴۔ مصری)
مذکورہ عبارت سے واضح ہوا کہ حضرت خنساء ثیبہ [1] تھیں۔ اور بڑی عمر کی صاحب الولد تھیں۔ باکرہ صغیرہ نہیں تھیں۔ جب کہ سائل کا سوال باکرہ صغیرہ غیر ممیّزہ کے بارے میں ہے۔
نیز اسی حدیث کو صحاح ستہ کے مشہور محدث امام ترمذی نے جامع ترمذی(ج: ۱ ،ص: ۱۷۸) پر اور امام بیہقی نے ’’سنن الکبرٰی بیہقی‘‘ (ج: ۷، ص: ۱۱۸) میں ’ مَا جَائَ فِی اِنْکَاحِ الثَّیِّبِ‘کے تحت اور علامہ الشیخ ولی الدین تبریزی نے ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ (جلد ثانی، ’بَابُ الْوَلِیِّ فِی النِّکَاحِ وَاِسْتِئْذَانِ الْمَرْأَۃ ‘کے تحت اور احناف کے فخر الاماثل امام محمد بن حسن شیبانی نے ’’موطا امام محمد‘‘(ص: ۲۳۹)پر’بَابُ الثَّیِّب اَحَقُّ بِنَفْسِہَا مِنْ وَلِیِّہَا‘کے تحت نقل فرمایا ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ کسی محدث نے ’بَابُ تَزْوِیج الصَّغِیْرِ وَالصَّغِیْرَۃ ‘باندھ کر اس حدیث کو نقل نہیں فرمایا اور نہ ہی کوئی محدث اس حدیث کے الفاظ ’وَہِیَ ثَیِّبٌ‘کے باوجود باکرہ۔ صغیرہ، غیر ممیزہ کے لیے بلوغ کے بعد فسخ نکاح کا مسئلہ مستنبط کر سکتا ہے لہٰذا آج کے عالی فہم شخص کے لیے جسے فہم حدیث سے دور کا واسطہ نہیں۔ ہم یہی کہہ سکتے ہیں بقول کے:
سرِّ خدا کہ عارف و زاہد کَسے نگفت
در حیرتم کہ بادہ فروش از کجا شنید
اجمالاً دلیل اور دلیل ثانی کا مشترکہ جواب:
’’دلیل اول حضرت خنساء والی روایت اور دلیل ثانی حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ کی جاریہ والی روایت سنن أبی داؤد کے حوالے سے پیش کی ہے۔‘‘
مذکورہ بالا دونوں روایتوں کی توضیح درج ذیل ہے۔
[1] جس لڑکی کا نکاح ایک بار پہلے ہو چکا ہو۔ اور اب (شوہر کی موت یا وقوعِ طلاق کے بعد عدت گزار کر) دوسرا نکاح کرنا چاہتی ہو۔(از راقم)