کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 211
عبداللہ نیپالی) (یکم جولائی ۱۹۹۴ء)
جواب :حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کے مطابق مفقود الخبرکی بیوی چار سال انتظار کرے۔ پھر چار ماہ دس دن عدت گزار کر جہاں چاہے باجازت ولی نکاح کر سکتی ہے۔(موطا امام مالک رحمہ اللہ )
بعد ازاں اگر پہلا خاوند آجائے تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔ الاَّ یہ کہ وہ درگزر کرلے تو نکاح ہذا بدستور قائم رہے گا۔ جملہ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :تلخیص الحبیر
بعض اہل علم عورت کی مجبوری کے پیش نظر اس سے کم مدت کے بھی قائل ہیں۔
مفقود کی بیوی اس کی آمد پر زوج ثانی سے پہلے شوہر کی زوجیت میں جا سکتی ہے یا نہیں؟
سوال :ایک آدمی نے شادی کی اور وہ گھر سے ایک دو مہینوں کی اجازت لے کر کہیں مزدوری کرنے کے لیے چلا گیا۔ لیکن تین چار سال گزر گئے وہ نہیں آیا۔ گھر والے سمجھے کہ وہ مر گیا ہے اور اس کی بیوی کی کہیں اور شادی کردی۔ لیکن اب اس کا سابقہ خاوند واپس آگیا ہے۔ اب کیا کیا جائے وہ سابقہ بیوی لے لے یا دوسری شادی کرے۔ (ایک سائل از لاہور) (۱۵ جنوری،۱۹۹۳ء)
جواب :اس سلسلہ میں عہد ِ فاروقی کے بعض واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ زوج اوّل کو اپنی بیوی واپس لینے یا پھر حق مہر کی واپسی کا اختیار ہے۔
قطع نظر جملہ تفاصیل کے مختلف مواقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے بایں الفاظ مأثور ہیں:
۱۔ فَخَیَّرَنِی عُمَرُ بَیْنَہَا وَبَیْنَ الصَّدَاقِ الَّذِی أَصَدَقْتہَا۔
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے بیوی اور جو حق مہر میں نے اس کو دیا تھا اس میں اختیار دیا تھا۔‘‘
’ أَنَّ عُمَرَ وَعُثْمَانَ قَالَا: إنْ جَائَ زَوْجُہَا الْأَوَّلُ، خُیِّرَ بَیْنَ الْمَرْأَۃِ وَبَیْنَ الصَّدَاقِ الَّذِی سَاقَ ہُوَ، رَوَاہُ الْجَوزَجَانِیُّ۔ ‘[1]
۲۔ ’ أَنَّہُ قَضَی لِلْمَفْقُودِ فِی امْرَأَتِہِ بِالْخِیَارِ بَیْنَ أَنْ یَنْزِعَہَا مِنْ الثَّانِی وَبَیْنَ أَنْ یَتْرُکَہَا۔‘
یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مفقود (زوج اوّل) کو اُس کی بیوی کے بارے میں اختیاد دیا تھا کہ اس کو دوسرے خاوند سے چھین لے یا اس کو چھوڑے رہنے دے۔‘‘
۳۔ ’ أَنَّہُ لَمَّا عَادَ الْمَفْقُودُ مَکَّنَہُ مِنْ أَخْذِ زَوْجَتِہِ ۔‘[2]
[1] المغنی لابن قدامۃ ،ج:۸،ص:۱۳۴
[2] تلخیض الحبیر، ج:۳، ص:۲۳۷۔ ۲۳۸