کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 197
چوری نکاح کرے، اور نکاح سے پہلے ملتا ملاتا بھی رہے۔
(۲) کیا اسلام میں عدالت میں نکاح یا عدالت میں لڑکی کے بیان جائز ہیں؟
(۳) اسلام میں اس وجہ سے جھوٹ بولنا کہ دوسرے کو تکلیف نہ ہو، کہاں تک جائز ہے جب جھوٹ کا پتہ چل جائے تو چاہے اس سے بھی زیادہ تکلیف ہو۔
شادی کے بعد کہا جائے مجبوری تھی غلطی ہو گئی۔ میں نے وہ نبھائی ہے۔
اسلام میں ایسی مجبوریاں اور غلطیاں کہاں تک جائز ہیں۔
اسلام میں کیا ضروری ہے کہ دونوں بیویوں کو اکٹھا ہی رکھا جائے۔
اسلام کی رو سے کیا میں بچوں کو لے کر علیحدہ رہ سکتی ہوں۔ خرچہ باپ کو دینا چاہیے یا نہیں۔
کیا بچے والدہ کے حق میں یا دفاع میں والد کے سامنے بول سکتے ہیں۔
جواب : الجواب بشرط صحت سوال۔ محترمہ آپ کا خاوند اگر فی الواقع برائی کا ارتکاب کرتا رہا ہے تو وہ اپنی حرکاتِ شنعیہ اور کذب بیانی کا اللہ کے سامنے جواب دہ ہے۔
اس کی بابت کتاب و سنت میں سخت وعید وارد ہے چنانچہ صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( لَا یَزْنِی الزَّانِی حِینَ یَزْنِی وَہُوَ مُؤْمِنٌ)) [1]
’’یعنی زانی جب زنا کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا۔‘‘
اندریں حالت اگر اس نے نکاح ثانی کر لیا ہے تو وہ بھی ناقابلِ اعتبار ہے۔راجح اور مؤید بالدلائل مسلک کے مطابق زانی اور زانیہ کا نکاح ناجائز اور غیر درست ہے۔ الا یہ کہ وہاں دو شرطیں پائی جائیں۔
اوّلاً: وہ اپنے فعل بد سے تائب ہوں۔
ثانیاً: بذمہ عورت استبراء رحم ہے جو کم از کم ایک ماہواری ہے۔ استبراء رحم ضروری ہے اگرچہ نطفہ اسی زانی کا ہو جو اس سے نکاح کرنا چاہتا ہے کیونکہ شرعی طور پر نطفہ ہذا حرمت کے لائق نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے غیر کا پانی ہے۔
اور جہاں تک آپ کے زوج کے دوسرے نکاح کا تعلق ہے سو یہ حق شریعت نے مرد کو عطا کیا ہے جس میں عورت اور اہل قرابت کی اجازت ضروری نہیں۔ البتہ نکاح سرّی جہاں گواہاں سرے سے موجود نہ ہوں یا ان کو کتمان عقد پر مجبور کردیا گیا ہو۔ ایسا نکاح ناجائز ہے۔
٭ شوہر کا صاحب اولاد ہو کر عقد ثانی کرنا کوئی عیب کی بات نہیں تاہم منہیات کا ارتکاب مقامِ خطر ہے اس سے تغافل باعث ِ ہلاکت ہے۔
[1] صحیح البخاری،بَابُ السَّارِقِ حِینَ یَسْرِقُ، رقم: ۶۷۸۲