کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 195
راستہ میں عمرو نے ان کو روک لیا اور اپنی بیوی مسماۃ ساجدہ کے نانا کو زدوکوب کیا اور اس کے کپڑے پھاڑ دیے اور کہا کہ توہمارا مخالف ہے میری بیوی سے تیرا کوئی تعلق نہیں اور عمرو اپنی بیوی کو گھسیٹ کر لے گیا۔ سوال یہ ہے کہ عمرو کی یہ زیادتی اور مذکورہ شرائط کی خلاف ورزی کرنے سے اس کی بیوی کو طلاق ہو گئی یا نہیں؟ بَیِّنُوْا تُوجرُوْا،جََزَاکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاء۔(سائل عبدالصمدولد فقیر احمد سعید مرحوم،خان بیلہ) جواب :الجواب بشرطِ صحت سوال۔ صورتِ مرقومہ میں چونکہ عمرو نے تحریری معاہدہ کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس لیے بمطابق شروط اس کی بیوی مسماۃ ساجدہ مطلقہ ہو چکی ہے۔ صحیحین میں حدیث ہے : ’’یعنی سب شرطوں سے زیادہ ایفائے عہد کے لائق وہ شرطیں ہیں جن کے ساتھ تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہے۔‘‘ اور بخاری شریف کی دوسری حدیث میں ہے: (( الْمُسْلِمُونَ عَلَی شُرُوطِہِمْ۔)) [1] ’’یعنی مسلمان اپنی شرطوں پر ہیں۔‘‘ نیز بخاری میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: (( إِنَّ مَقَاطِعَ الحُقُوقِ عِنْدَ الشُّرُوطِ۔)) [2] ’’یعنی حقوق کے فیصلے شرائط کے مطابق ہیں۔‘‘ ان روایات سے معلوم ہوا کہ مذکورہ شروط کی عدم تعمیل کی بناء پر عمرو کی بیوی ساجدہ پر طلاق واقع ہو چکی ہے لیکن راجح مذہب کے مطابق صورتِ مسئولہ میں طلاقِ رجعی واقع ہوئی ہے۔ نہ کہ بائنہ مغلّظہ، جس طرح کہ حنفیہ وغیرہ کا خیال ہے۔مقصد یہ ہے کہ خاوند اگر عدت کے دوران رجوع کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔ عدت گزرنے کی صورت میں تجدیدِ عقد بھی درست ہے۔ نکاح کے وقت مقرر کردہ شرط سوال : زید نے یکے بعد دیگرے دو عورتوں کو طلاق دے کر ایک دوشیزہ سے شادی کرلی۔ تین سال بعد معلوم ہوا أَحَقُّ الشُّرُوطِ أَنْ تُوفُوا بِہِ مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِہِ الفُرُوجَ۔[3]
[1] صحیح البخاری،بَابُ الشُّرُوطِ فِی المَہْرِ عِنْدَ عُقْدَۃِ النِّکَاحِ،رقم:۲۷۲۱ [2] سنن أبی داؤد،بَابٌ فِی الصُّلْحِ،رقم:۳۵۹۴، سنن الترمذی، بَابُ مَا ذُکِرَ عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الصُّلْحِ بَیْنَ النَّاسِ،رقم:۱۳۵۲ [3] صحیح البخاری،بَابُ الشُّرُوطِ فِی المَہْرِ عِنْدَ عُقْدَۃِ النِّکَاحِ