کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 178
جواب :شادی کے موقع پر دولہا اور دولہن کو سلامیاں دینا محض ایک رسم ہے جس کو ختم کرنا چاہیے۔ البتہ شادی کے موقعے پر تحفے تحائف دینے میں کوئی حرج نہیں، یہ اخوت و محبت میں اضافے کا ذریعہ ہے ، اس کی حیثیت قرض کی نہیں بلکہ حسب توفیق و استطاعت اظہارِ محبت ہے۔ ہاں جس رقم کو مخصوص کھاتوں پر چڑھایا جاتا ہے تاکہ کل کو زیادہ کا مطالبہ ہو یا کم از کم اصل واپس کیا جائے یہ درست نہیں بلکہ ہندوؤانہ رسم ہے جس کا قلع قمع ضروری ہے۔ شادی اور اساتذہ کرام کے تحفے تحائف : سوال :شادی میں لین دین ، اساتذہ کاشاگرد سے معاوضہ اور تحائف کی امید اور مال پر نظر کا ہونا۔ کتاب و سنت کے حوالے سے ان چیزوں کی وضاحت فرمادیں۔ (ایک سائل۔از لاہور) (۱۸ دسمبر۱۹۹۳ء) جواب :بموقعہ شادی لین دین طبعی خوشی میں شامل ہے۔ شریعت میں ممانعت وارد نہیں۔ا سی طرح اساتذہ کرام کا اپنے شاگردوں سے تحفے تحائف وصول کرنا بھی طبعی خوشی کے زمرہ میں آتا ہے۔ تاہم اساتذہ کو اس سلسلہ میں طلبہ کو مجبور نہیں کرنا چاہیے۔[1] شادی بیاہ میں رسومات سے اجتناب ضروری ہے: سوال :شادی کا سلسلہ بھی تقریباً درج ذیل خرافات کو سمیٹے ہوئے ہے۔ پہلے شادی کے دن مقرر کرنے کے لیے گاؤں بلوایا جاتا ہے۔ دن مقرر ہوتے ہیں۔ پھر شادی کی مقررہ تاریخ سے قبل شادی والے گاؤں میں گانے گائے جاتے ہیں۔ عزیز و اقارب دیگر لوگ خصوصاً خواتین شادی والے گھر جا کر گانا گاتے ہیں۔ پھر دولہا کی دوستی شروع ہوتی ہے۔ کسی کے چار، تین، دو حسب طاقت پھر اسی طرح دعوت دی جاتی ہے کہ اس دوست کی چورمائی کے نام سے
[1] شادی کے موقعے پر جو لین دین ہوتا ہے جسے نیوتہ کہا جاتا ہے، اس کی ابتداء تو بظاہر اچھے مقاصد ہی کے لیے ہوئی ہوگی کہ تمام رشتے داروں کی طرف سے تعاون حاصل ہو جاتا اور غریب آدمی کو مالی سہارا مہیا ہو جاتا ہے۔ اس کا جواز صرف اس صورت میں تو شک و شبہ سے بالا ہے کہ دینے والا صرف تعاون یا تحفہ کی نیت سے دے۔ واپسی کی نیت سے نہ دے۔ لیکن اب یہ صورت تعاون یا تحفہ سے بڑھ کر سودی قرض کی سی شکل اختیار کر گئی ہے۔ اب دینے والا اس نیت سے دیتا ہے کہ ۱۰۰ روپیہ دوں گا تو میرے بیٹے یا بیٹی کی شادی پر اس سے دوگنا یا ڈیڑھ گنا مجھے واپس مل جائے گا اور اگر کوئی اس طرح واپس نہیں کرتا تو اس پر برا منایا جاتا ہے۔ اور اسے رقم ہضم کرجانے سے تعبیر کیا جاتا ہے یوں گویا تعاون کی جگہ سودی ذہنیت نے لے لی ہے۔ اور یوں بلاتامّل سود لیا اور دیا جا رہا ہے اور نام اس کا تحفہ ،ہدیہ یا سلامی ہے۔ بنا بریں اس رواج کو اب بدلنے کی ضرورت ہے اور اس کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ شادی کے موقعوں پر تحائف و ہدایا اور سلامی وغیرہ کا سلسلہ بالکل ختم کردیا جائے کوئی محتاج اور ضرورتمند ہو تو اُسے بطورِ قرض حسنہ آسان شرائط پر رقم دے دی جائے۔(ص۔ی)