کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 167
لہٰذا اس کی صحت میں کوئی اشکال نہیں البتہ سن حرمت رضاعت کے متعلقہ روایات میں چونکہ سخت اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس لیے ان میں جمع ، تطبیق اور موافقت کی صورت امام ابن تیمیہ اور علامہ شوکانی وغیرہ نے یوں نکالی ہے کہ اصلاً مدت دو سال ہے مگر بوقتِ ضرورت رضاعت کبیر بھی ثابت ہو جاتی ہے۔
سہلہ کا قصہ اس پر واضح شاہد ہے جس میں تردد کی گنجائش نہیں اور جن لوگوں نے واقعہ سالم کو خاصہ یا منسوخ قرار دینے کی سعی کی ہے یہ موقف درست نہیں کیونکہ اجازتِ نبوی عام ہے اس کو بلا دلیل منسوخ یا خاصہ تسلیم کرنا سعی لاحاصل ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسلک کونہایت عمدہ اور راجح کہا ہے۔ فرماتے ہیں :
’’اس سے تمام احادیث میں موافقت ہوجاتی ہے۔‘‘
نیز شیخی محدث روپڑی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’جب کسی سے بوجہ کسی ضرورت کے پردہ مشکل ہو تو ایسے موقع پر بڑے کی رضاعت بھی ثابت ہو جائے گی اور عام طور پر مدت ِ رضاعت کے لیے دو سال کی شرط ہو گی۔ یہ نہایت جچا تلا فیصلہ ہے جس میں تمام خدشات رفع ہو جاتے ہیں۔ اور کسی قسم کا تردّد یا کھٹکا دل میں باقی نہیں رہتا کیونکہ جو لوگ مطلقاً رضاعت کبیر کے قائل ہیں ان کے مذہب پر وہ احادیث چھوٹ جاتی ہیں جن سے مدت ِ رضاعت دو سال ثابت ہوتی ہے اور جو رضاعت کبیر کے بالکل منکر ہیں۔ ان کے مذہب پر سالم کی روایات رہ جاتی ہیں۔ اگر اس فیصلہ پر عمل کیا جائے تو ہر حدیث اپنی اپنی جگہ قابلِ عمل رہتی ہے۔‘‘ [1]
رضاعت کے ثابت ہونے کے لیے بچے کی عمر کیا ہونی چاہیے؟
سوال :قرآن و حدیث کے دلائل سے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دیں۔
۱۔رضاعت کے ثابت ہونے کے لیے بچے کی عمر کیا ہونی چاہیے؟
۲۔رضاعت کے لیے دودھ کی کتنی کم از کم مقدار پی جانی چاہیے؟
۳۔کیا رضاعت ثابت ہونے کے لیے گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے؟ اگر ہے تو کم از کم کتنے گواہ ہونے چاہیے؟(سائل: شاہد۔ لاہور) (۱۰ جنوری۱۹۹۷ء)
جواب : ۱۔ عام حالات میں قابلِ اعتبار رضاعت دو سال کے اندر ہے۔ [2]
[1] فتاویٰ اہل حدیث:۳/۱۸۵
[2] سنن الدارقطنی،کِتَابُ الرَّضَاعِ، رقم:۴۳۶۴