کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد4) - صفحہ 164
(( لَا رَضَاعَ إِلَّا مَا کَانَ فِی الْحَوْلَیْنِ۔)) [1] ’’ یعنی رضاعت دو سال کے اندر ہے۔‘‘ اور ’’صحیحین‘‘ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاا سے مروی ہے: (( فَإِنَّمَا الرَّضَاعَۃُ مِنَ المَجَاعَۃِ۔)) [2] ’’ رضاعت بھوک سے ہے۔‘‘ یعنی رضاعت وہی معتبر ہے جب کہ رضاعت کے ما سوا بچے کی بھوک دور کرنے کا دوسرا کوئی ذریعہ نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ دو سال کے اندر ہی ہے کیونکہ بعد میں بچہ غذا اور خوراک پر انحصار کرتا ہے۔ اس فہم کی بناء پر امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی’’صحیح‘‘ میں حدیث ہذا پر بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے (( بَابُ مَنْ قَالَ:لاَ رَضَاعَ بَعْدَ حَوْلَیْنِ)) ’’دو سال کے بعد رضاعت نہیں۔‘‘ اور سنن ابو داؤد میں حدیث ہے: (( لَا رِضَاعَ إِلَّا مَا شَدَّ الْعَظْمَ وَأَنْبَتَ اللَّحْمَ۔)) [3] ’’یعنی معتبر رضاعت وہ ہے جو ہڈیاں پیدا کرے اور گوشت اُگائے۔‘‘ یعنی جب ہڈیاں اور گوشت کی نشوونما کا ذریعہ صرف رضاعت ہو، اس وقت کی رضاعت معتبر ہے۔ سو یہ بھی دو سال کے اندر ہے۔ ۲۔اثباتِ رضاعت کے لیے گواہوں کی تعداد کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بالاختصار مختلف اقوال ملاحظہ فرمائیں۔ (۱) دو عورتیں (۲) چار عورتیں۔ (۳) ایک عورت۔ جو لوگ دو عورتوں کی گواہی قبول کرنے کے قائل ہیں ان میں سے بعض نے شرط لگائی ہے کہ گواہی دینے سے پہلے ان کے اقوال مشہور و معروف ہوں۔ ’’صحیح بخاری‘‘ کے ترجمۃ الباب میں بھی بلا عدد استفاضہ (شہرت) کو قابلِ اعتماد سمجھا گیا ہے۔ راجح بات یہ ہے کہ صرف ایک عورت کی گواہی بھی قابل اعتماد ہے۔ دلیل اس کی عقبہ بن حارث کی حدیث ہے۔ جو’’صحیح بخاری‘‘میں متعدد مقامات پر موجود ہے: (( وَکَیْفَ وَقَدْ قِیلَ، دَعْہَا عَنْکَ أَوْ نَحْوَہُ۔)) [4]
[1] سنن الدارقطنی،کِتَابُ الرَّضَاعِ،رقم:۴۳۶۴ [2] صحیح البخاری،بَابُ الشَّہَادَۃِ عَلَی الأَنْسَابِ، وَالرَّضَاعِ …الخ،رقم:۲۶۴۷، صحیح مسلم،بَابُ إِنَّمَا الرَّضَاعَۃُ مِنَ الْمَجَاعَۃِ،رقم:۱۴۵۵) [3] سنن ابی داؤد،بَابٌ فِی رِضَاعَۃِ الْکَبِیرِ، رقم:۲۰۵۹ [4] صحیح البخاری،بَابُ شَہَادَۃِ المُرْضِعَۃِ، رقم:۲۶۶۰